Skip to content

کیفیت نامہ

27 دسمبر 2021ء

20:14

میں کہتا ہوں کہ اس کائنات کا ایک خدا ہے۔ ایک شخص ناک سکیڑ کر کہتا ہے، نہیں۔ تم ایک احمقانہ واہمے کا شکار ہو۔ مجھے غصہ آ جاتا ہے۔ کس لیے؟

اس لیے کہ خدا جھٹلایا گیا؟ نہیں۔ بلکہ اس لیے کہ میں جھٹلایا گیا۔

سمجھنا چاہیے کہ جو ہے سو ہے۔ اور جو نہیں ہے سو نہیں ہے۔ کسی کے نہ ماننے سے موجود معدوم نہیں ہو جاتا اور کسی کے مان لینے سے معدوم موجود نہیں ہو جاتا۔ اگر خدا ہے تو اسے کسی کے اقرار یا انکار کی کیا پروا ہو سکتی ہے؟ ایک حقیر سی مکھی کو تو اس سے فرق پڑتا نہیں کہ کوئی اسے تسلیم کرتا ہے یا نہیں۔ خدا کو کیسے پڑ سکتا ہے؟

ہاں، البتہ میری اپنی ذات کو فرق پڑتا ہے۔ اور بہت پڑتا ہے۔ جھٹلانے والے نے میرا تصور جھٹلا دیا۔ میری بات رد کر دی۔ میرے ایمان کا انکار کر دیا۔ میری توہین کر دی۔ میرا تصور، میری بات، میرا ایمان، میری آبرو اس کی تصدیق کے محتاج تھے۔ وہ اس نے نہیں کی۔ مجھے اس لیے غصہ آتا ہے۔

وَقَالَ مُوۡسٰٓى اِنۡ تَكۡفُرُوۡۤا اَنۡـتُمۡ وَمَنۡ فِى الۡاَرۡضِ جَمِيۡعًا ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ لَـغَنِىٌّ حَمِيۡدٌ‏ ۞

(سورۂ ابراهيم – آیت 8)

اور موسیٰ نے کہا کہ اگر تم انکار کرو اور وہ سب بھی جو زمین میں ہیں تو بھی اللہ بے نیاز اور حمد کے لائق ہے۔

راحیلؔ فاروق

پنجاب (پاکستان) سے تعلق رکھنے والے اردو ادیب۔

Prevپچھلا کیفیت نامہ
اگلا کیفیت نامہNext

تبصرہ کیجیے

اظہارِ خیال

کیفیات

چھوٹی چھوٹی باتیں۔ جذبات، کیفیات، احساسات اور خیالات۔ سماجی واسطوں پر دیے جانے والے سٹیٹس (status) کی طرح!

آپ کے لیے

قُلْ لَّآ اَجِدُ فِىْ مَآ اُوْحِىَ اِلَىَّ مُحَرَّمًا عَلٰى طَاعِمٍ يَّطْعَمُهٝٓ اِلَّآ اَنْ يَّكُـوْنَ مَيْتَةً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْـمَ خِنزِيْرٍ فَاِنَّهٝ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُهِلَّ لِغَيْـرِ اللّـٰهِ بِهٖ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْـرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِيْـمٌ (انعام: 145)

کہہ دو کہ میں اس وحی میں جو مجھے پہنچی ہے کسی چیز کو کھانے والے پر حرام نہیں پاتا جو اسے کھائے مگر یہ کہ وہ مردار ہو یا بہتا ہوا خون یا سور کا گوشت کہ وہ ناپاک ہے یا وہ ناجائز ذبیحہ جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے، پھر جو بھوک سے بے اختیار ہوجائے ایسی حالت میں کہ نہ بغاوت کرنے والا اور نہ حد سے گزرنے والا ہو تو تیرا رب بخشنے والا مہربان ہے۔

حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کہی ہوئی بات کو کہتے ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبرِ پاکؐ کو حکم دیا ہے کہ وہ کہیں کہ ان تک جو وحی پہنچی ہے اس کی رو سے مردار، خون، سؤر یا غیر اللہ کے ذبیحے کے سوا کوئی شے کھانے والوں پر حرام نہیں۔ الخ۔ مگر کتنی دلچسپ بات ہے کہ احادیث کے کسی مجموعے میں اس مضمون کی ایک بھی حدیث نہیں ملتی!

گویا احادیث کی رو سے کوئی ثبوت نہیں کہ رسولِ مصطفیٰؐ نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر عمل کیا ہو۔ نعوذ باللہ، معاذ اللہ۔ الٹا جو روایات حلت و حرمت پر ملتی ہیں وہ اللہ کے دیے ہوئے اس حکم کے یکسر خلاف ہیں۔ ثم معاذ اللہ!

اللہ عزوجل نے قرآنِ مجید میں بالتصریح فرمایا ہے کہ رحمت اللعالمینؐ اپنی خواہش یا مرضی سے کچھ نہیں کہتے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اللہ ایک بات کہنے کا حکم دے اور وہ ہمارے نبیؐ کبھی کسی سے نہ کہیں اور جس بات کا اشارہ تک قرآن میں نہ ملے اس پر تواتر سے احادیث مل جائیں؟

راحیلؔ فاروق
  • کیفیت نامہ
  • 20 ستمبر 2020ء
  • ربط
ہمارا ساتھ دیجیے

اردو گاہ کے مندرجات لفظاً یا معناً اکثر کتب، جرائد، مقالات اور مضامین وغیرہ میں بلاحوالہ نقل کیے جاتے ہیں۔ اگر آپ کسی مراسلے کی اصلیت و اولیت کی بابت تردد کا شکار ہیں تو براہِ کرم اس کی تاریخِ اشاعت ملاحظہ فرمائیے۔ توثیق کے لیے web.archive.org سے بھی رجوع لایا جا سکتا ہے۔

© 2022 - جملہ حقوق محفوظ ہیں۔