بےوقوف آدمی کی ایک پہچان یہ ہے کہ اسے فائدہ پہنچانا نقصان پہنچانے سے زیادہ مشکل ہوتا ہے۔
شاعری الفاظ اور آہنگ کا کھیل ہے۔ جدید شاعری نے اس اصول سے بغاوت کر کے معانی اور خیالات کے مختلف کوائف پر اپنی عمارت استوار کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کا ایک دلچسپ نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ شاعری اور موسیقی کی راہیں بالکل جدا ہو گئی ہیں۔ فیضؔ اور فرازؔ کے عہد تک چوٹی کے موسیقار چوٹی کے شعرا کا کلام پیش کرتے رہے ہیں۔ مگر نئے شعرا کا کلام لفظی و معنوی ہر دو اعتبار سے گانے کے لیے مشکل ہی نہیں اکثر و بیشتر ناممکن بھی ہے۔ زور زبردستی سے کوئی گا لے تو الگ بات ہے مگر نہ اس گائیکی کا کوئی نام لیوا ہے نہ شاعری کا۔ رائج موسیقی وہی ہے جس کا رائج شاعری سے کوئی واسطہ نہیں۔ اس لیے ہمارا خیال ہے کہ فلمی اور غیر فلمی موسیقی کے زوال میں ایک بڑا کردار ہمارے شعرا کا بھی ہے۔ انھوں نے الفاظ و تراکیب کی خوش آہنگی، آفاقی جذبات کی ترجمانی اور خیالات کی سادگی وغیرہ سے منہ موڑ کر اپنے ساتھ تو جو کیا سو کیا، ہماری موسیقی کو بھی ان دلکش اور دلربا نغموں سے محروم کر دیا جو اس کی شناخت تھے۔
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 22 نومبر 2021ء
- ربط