برے کو اچھا کہنے سے وہ اچھا نہیں ہو جاتا بلکہ کہنے والا بھی برا ہو جاتا ہے۔
لوگ چاہنے اور چاہے جانے کی آرزو کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تجربہ انسان کے اعصاب کو پگھلا کر رکھ دینے کے لیے کافی ہے۔ میں ناکام محبت کی بات نہیں کر رہا۔ دو طرفہ محبت اور شدید محبت زیادہ جان لیوا دیکھی گئی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ شاید یہ ہے کہ یہ آسمانی جذبہ ایک زمینی انسان میں دوسرے زمینی انسان کے لیے پیدا ہوتا ہے۔ بشر کا دل محبت کے لیے بہت چھوٹا ہے۔ کوزے میں دریا داخل ہو جائے تو پھٹ جانا ہی اس کا مقدر ہے۔ چاہنے والے کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کیا چاہتا ہے اور چاہے جانے والے کو خبر نہیں ہوتی کہ اس سے کیا چاہا جا رہا ہے۔ محبوب دفعتاً بشر کی سطح سے اٹھ کر خدائی کے سنگھاسن پر جا بیٹھتا ہے اور عاشق کی ذات گھٹتی گھٹتی گندی نالی میں رینگنے والے کیڑے سے بھی گھٹ جاتی ہے۔ دونوں سے سلوک بھی حسبِ حال ہوتا ہے۔ عاشق محبوب سے وہ امیدیں باندھتا ہے جو خدا کے سوا کوئی پوری نہیں کر سکتا۔ محبوب عاشق کو کیڑے مکوڑوں کی طرح روند ڈالنے میں کوئی مضائقہ نہیں دیکھتا۔ اگر دونوں ایک دوسرے کے عاشق ہوں اور دونوں محبوب تو پھر خدا حافظ ہے۔ ایسے ہی دیوانوں کی کہانیاں ہیں جو چار دانگِ عالم میں پھیلتی ہیں اور وہ لوگ جن کی زندگیاں محبت کے بلا خیز طوفانوں سے تہ و بالا نہیں ہوئیں، انھیں پاگل پن یا محض افسانہ طرازیاں سمجھ کر ہنستے ہیں۔
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 7 جنوری 2022ء
- ربط