سات ارب انسانوں کی دنیا میں ایک بھی ایسا نہیں جو کسی دوسرے کو بچا سکے۔ ایک بھی ایسا نہیں جو خود بچ سکے۔ سب چلتے پھرتے، جیتے جاگتے لوگ فنا کا مال ہیں۔ آج نہیں تو کل مٹی میں مل جانے والے ہیں۔ یہ رونقیں، یہ دلچسپیاں، یہ لگاؤ، یہ محبتیں، یہ کام، یہ مصروفیات کتنا بڑا دھوکا ہیں!
بہت بار ہوتا ہے کہ ہم کوئی خوبی یا صفت اپنے اندر پیدا کرنا چاہتے ہیں مگر نہیں کر پاتے۔ اس کا ایک سادہ مگر دلچسپ حل میری سمجھ میں آیا ہے۔ یعنی یہ کہ ان لوگوں کا کھلے دل سے اعتراف کیا جائے جن میں وہ خوبی پائی جاتی ہے۔ انھیں تسلیم کیا جائے۔ ان سے محبت کی جائے۔ آپ کو شاید عجیب لگے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ ان لوگوں سے حسد کرتے ہیں جن کی طرح وہ بننا چاہتے ہیں۔ حسد اصل میں محسود کی شخصیت اور کمال کا انکار ہے۔ ہم انھیں نیچا دکھانا چاہتے ہیں۔ ان سے مقابلہ کرنا چاہتے ہیں جن سے ہمیں سیکھنا چاہیے تھا۔ انھیں دیکھنا ہی نہیں چاہتے جو در حقیقت ہمیں اچھے لگتے ہیں۔
کوئی اچھائی اپنے اندر پیدا کرنے کی خواہش ہے تو اس کا راستہ اچھے لوگوں کی محبت اور صحبت ہے۔ اگر انھیں رد کریں گے تو اس اچھائی کو رد کر دیں گے جس کی تڑپ ہمارے دل میں انھیں دیکھ کر پیدا ہوئی تھی۔ اور یہ بڑی نادانی کی بات ہے۔ سمجھنا چاہیے کہ اگر کسی شخص میں کوئی خوبی پائی جاتی ہےتو وہ گویا اس خوبی کا چراغ ہے۔ اسی سے منہ پھیر لیا تو پھر ہمیں اندھیروں پر قناعت کرنی پڑے گی۔ روشنی کی آرزو آرزو ہی رہ جائے گی۔
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 29 ستمبر 2021ء
- ربط