تشکر انسانی طبیعت کا وہ وظیفہ ہے جس کی اہمیت پہ تمام مذاہب نے یکساں طور پر زور دیا ہے۔ غیر مذہبی انسانیاتی علوم بھی اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ شکر گزار انسان نہ صرف زیادہ خوش اور پرسکون رہتا ہے بلکہ اس کی زندگی عملی طور پر بھی دوسروں سے بہتر گزرتی ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ پہلے پہل مجھے کب شکر کو سمجھنے سے دلچسپی پیدا ہوئی۔ مگر اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ اول اول یہ رغبت نہایت سطحی اور مادہ پرستانہ قسم کی تھی جس کا مقصد دنیوی سطح پر اپنے زیادہ سے زیادہ فائدے کو یقینی بنانا تھا۔ پھر میرے مالک نے رہنمائی فرمائی اور میں اس ہدایت تک پہنچا جس کا بیان اس مضمون میں کیا چاہتا ہوں۔
ہمیں روزمرہ معاملات میں شکریہ، مہربانی، عنایت وغیرہ کہنے کی عادت ہوتی ہے۔ تاہم اگر آپ تامل کی نظر سے دیکھیں تو شکرگزاری کے حوالے سے ایک عجیب حقیقت آپ پر آشکار ہو گی۔ مثال سے سمجھتے ہیں۔ آپ سو روپے کی کوئی شے خریدیں اور وہ آپ کو قیمت کے موافق بالکل ٹھیک ٹھیک مل جائے تو آپ مطمئن ہو جائیں گے۔ دکاندار کا شکریہ ادا کریں گے اور اپنی راہ لیں گے۔ مگر کیا آپ واقعی دکاندار کے شکرگزار تھے؟ کیا اس نے آپ پر کوئی احسان کیا تھا؟ کیا آپ نے اپنے ادا کردہ سو روپوں سے زائد کچھ پا لیا تھا؟ بالکل نہیں۔ آپ نے قیمت دی تھی۔ برابر کا مال وصول کیا تھا۔ اس لیے یہ شکر گزاری محض زبانی کلامی اور ایک تہذیبی تقاضے کے طور پر تھی۔ سطحی اور لفظی سی۔ اس قسم کی جس کے بارے میں کسی شاعر نے کہا ہے:
جب کھینچ کے آہِ سرد
کہتا ہے کوئی بندہ
جس حال میں بھی رکھے
صد شکر ہے اللہ کا
میں سوچنے لگتا ہوں
یہ شکر کیا اس نے
یا طعنہ دیا اس نے
رزاقِ دو عالم کو؟
لیکن فرض کیجیے کہ دکاندار سو روپے کا سودا بھی آپ کو دیتا ہے اور سو روپیہ بھی لینے سے انکار کر دیتا ہے۔ تب آپ کی کیفیت کیا ہو گی؟ کیا آپ کو مسرت نہیں ہو گی؟ کیا آپ خود کو اس کا ممنون اور زیر بارِ احسان محسوس نہ کریں گے؟ کیا شکر گزاری کا جذبہ سچ مچ آپ کے دل کی گہرائیوں سے بیدار نہ ہو جائے گا؟ یقیناً ایسا ہی ہو گا۔ آپ اس دکاندار کی تعریف کریں گے۔ اس کی غیر موجودگی میں بھی اس کی خوبی بیان کریں گے۔ کیونکہ وہ تعریف کے لائق ہے۔ اس نے آپ کو وہ دیا جو آپ کا حق نہیں تھا۔ جو آپ نے کمایا نہیں تھا۔ جس کی آپ نے قیمت ادا نہ کی تھی۔
شکر گزاری، جہاں تک میں سمجھا ہوں، فی الاصل یہی چیز ہے۔ انسان جب تک زندگی اور اس کے معاملات کو اپنی کارکردگی اور سرگرمی سے منسوب کرتا ہے شکر گزار نہیں ہو سکتا۔ شکر گزاری یہ مان لینے کا نام ہے کہ سب کچھ مفت ہے۔ سب کچھ عطا ہے۔ سب کچھ کرم ہے۔ کچھ بھی کمایا نہیں۔ کسی شے کی قیمت ادا نہیں کی۔ کسی شے پر حق نہیں۔ سب مفت کا مال ہے۔ دینے والے کی جے ہو۔ وہ بڑی ذات ہے۔ تعریف اسی کی ہے۔
آپ یاد کریں تو ہمارے ہاں شکر کا سیدھا سادہ مطلب ہے، الحمدللہ کہنا۔ مگر الحمدللہ کے معانی پہ بھی کبھی غور فرمایا آپ نے؟ اس کا مطلب ہے، تعریف اللہ کے لیے ہے۔ اللہ کی تعریف کا ہماری شکر گزاری سے کیا تعلق؟ یہی تعلق ہے، بندہ پرور۔ کھانا کھایا تو الحمدللہ کہا۔ کیونکہ ہم نے نہیں کھایا۔ ہم نے نہیں کمایا۔ قیمت ادا نہیں کی۔ دینے والے نے مفت دیا۔ بہتوں کو نہیں بھی دیتا۔ ہم پر کرم کیا۔ تعریف اس کی۔ ستائش اس کی۔ حمد اس کی۔ وہ بڑی ذات ہے!
دنیا کی نسبت مادہ پرستانہ اور عملیت پسندانہ رویے رکھنے والا شخص کبھی شکر گزار نہیں ہو سکتا۔ وہ ہمیشہ جمع تفریق میں لگا رہتا ہے۔ میں نے فلاں کیا۔ اس کا یہ نتیجہ نکلا۔ یہ نہ نکلا۔ یہ کیوں نکلا؟ یہ کیوں نہ نکلا؟ اتنی محنت کی یہ جزا موصول ہوئی۔ زیادہ ہونی چاہیے تھی۔ یا کم ہونی چاہیے تھی اور زیادہ ہو گئی۔ ایسا کیوں ہوا؟ آئندہ بھی ایسا ہی کروں گا تاکہ زیادہ فائدہ اٹھاؤں۔ وغیرہ وغیرہ۔ ایسا شخص نہیں جانتا کہ دنیا کے اسباب و علل محض دھوکا ہیں جو اسی لیے قائم کیا گیا ہے کہ سرکش اور متکبر لوگ اس کا شکار ہو جائیں۔ اپنی لیاقت اور صلاحیت پر بھروسا کریں اور علت و معلول کی بھول بھلیوں میں تا حینِ حیات بھٹکتے رہیں۔ ایسا شخص بدقسمتی سے اپنی زندگی کی تمام تر ذمہ داری اپنے تئیں قبول کر لیتا ہے۔ وہ کرے گا تو ہو گا۔ نہیں کرے گا تو نہیں ہو گا۔ اچھا کرے گا تو اچھا ہو گا۔ برا کرے گا تو برا ہو گا۔ یہ بڑا بوجھ ہے۔ بڑی ذمہ داری ہے۔ زندگی اس رنگ میں ایک تکلیفِ مالا یطاق ہے۔ آپ کو ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانا پڑتا ہے۔ ہر اثاثہ سینت سینت کر رکھنا پڑتا ہے۔ ہر شے کی منصوبہ بندی کرنا پڑتی ہے۔ پھر بھی جب چیزیں توقعات کے برخلاف ہوں تو خود کو مجرم ٹھہرانا پڑتا ہے۔ سلسلۂِ سبب و مسبب کے تحت اپنی غلطی کا سراغ نکالنا پڑتا ہے۔ خاک چین پائے گا ایسا آدمی؟ تشکر سے اس سے زیادہ بعید کوئی طبیعت نہیں ہو سکتی جس نے اپنے بھلے برے کا اختیار خود کو ودیعت کر دیا ہو۔
ایسے شخص کی مثال اس مسافر کی سی ہے جو کسی لاری میں بیٹھا ہو اور اپنے تئیں ڈرائیور سمجھ رہا ہو۔ لاری چڑھائی چڑھے تو زور لگائے۔ اترائی اترے تو شور مچائے۔ کسی اور گاڑی کے قریب سے گزرے تو سہم کے ایک جانب ہو جائے اور اپنے کاندھے پر تھپکی دے کہ سمجھ داری کی ورنہ نیچے ہی آ گیا تھا۔ صاف سڑک آئے تو خوش ہو کہ مجھ ایسا دانش مند کون ہو گا جو ایسی اچھی گاڑی چلائے۔ مشکل راہوں کا سامنا ہو تو واپس پلٹنے کی کوشش کرے مگر پلٹ نہ سکے۔ کیسی دیوانگی ہے؟
اس کے مقابل شکر گزار وہ ہے جو جانتا ہے کہ وہ محض مسافر ہے۔ لاری چلانے والا اور ہے اور اسے اس کی منزلِ مقصود پرپہنچا کر دم لے گا۔ ایسا شخص اطمینان اور سرخوشی کا سفر طے کرے گا اور کسی بڑی سے بڑی مصیبت میں بھی بدحواس ہونے کی بجائے گاڑی بان پر تکیہ کر کے لمبی تان کے سوئے گا۔ راستہ اوبڑ کھابڑ ہو گا تو جانے گا کہ گاڑی بان گزار لے گا۔ اچھا ہو گا تو بھی اسی کا شکر گزار ہو گا۔ یہ اس لیے کہ وہ اپنی حقیقت سے واقف ہے۔ جانتا ہے کہ اس کے سفر کی ذمہ داری تمام تر ڈرائیور پر ہے۔ وہ چاہ کر جلدی نہیں پہنچ سکتا اور نہ چاہ کر دیر نہیں کر سکتا۔ مرضی سے راستہ چن نہیں سکتا اور خواہش سے چھوڑ نہیں سکتا۔ سب کچھ کرنے والا گاڑی بان ہے۔ اس کے لیے سب نظارے مفت ہیں۔ سفر کی تمام نیرنگیاں کرم ہیں۔ ہر تجربہ عطا ہے۔ مالِ مفت دلِ بےرحم کے مصداق یہ مزے اسے زیادہ سے زیادہ لوٹ لینے چاہئیں۔ ایسا شخص کیوں پریشان ہو گا بھلا؟
پنجابی کی ایک کہاوت ہے۔ سائیں جانن تے بلائیں جانن۔ یعنی مالک جانیں اور مصائب جانیں۔ شکر گزار کا زندگی کی جانب یہی رویہ ہوتا ہے۔ وہ مالک کو پہنچانتا ہے۔ اپنی اوقات سے واقف ہوتا ہے۔ خود کو مالک نہیں جانتا اور مالک کو خود سا نہیں سمجھتا۔ یوں کہنا چاہیے کہ شکر فاعلِ حقیقی کو پہچان لینے کا نام ہے۔ یعنی آپ کو عرفان ہو جائے کہ ہر کام کا کرنے والا کون ہے؟ روٹی کھلانے والا کون ہے؟ اولاد دینے والا کون ہے؟ زندگی دینے والا کون ہے؟ مارنے والا کون ہے؟ بچانے والا کون ہے؟ بیماری دینے والا کون ہے؟ صحت بخشنے والا کون ہے؟ بھوکا مارنے والا کون ہے؟ چھپڑ پھاڑ کے دینے والا کون ہے؟ عزت دینے والا کون ہے؟ رسوا کرنے والا کون ہے؟ چوٹ لگانے والا کون ہے؟ مرہم رکھنے والا کون ہے؟
جس نے یہ پہچان لیا وہ شکر گزار ہو گیا۔ جس نے اپنے بارے میں یا دوسروں انسانوں کی نسبت یہ خیال باندھا کہ وہ کرنے والے ہیں وہ گھاٹے میں رہا۔ اس نے کفر کیا۔ یعنی انکار۔ حقیقت کا انکار۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی کرنے والا نہیں مگر وہ جو سب کچھ کرنے والا ہے۔ قرآنِ مجید میں میری یادداشت اور مشاہدے کے مطابق شکر گزار یعنی شاکر یا شکور کے مقابل ہمیشہ کافر اور کفور کے الفاظ آئے ہیں۔ یعنی شکر کے مقابل کفر ہے۔ شکر پہچاننا اور تسلیم کرنا ہے اور کفر اغماض برتنا اور انکار کرنا۔ رائج مفہوم میں ناشکری جیسی کوئی شے الہامی کتب میں مذکور نہیں۔ ناشکری کفر ہی ہے۔ احسان نہ ماننا۔ احسان کرنے والے کو فراموش کر دینا۔ اس کا احسان کسی اور سے، خواہ وہ کوئی انسان ہو، چیز ہو، حالت ہو یا علت، منسوب کرنا۔ شاکر ہر شے کو خدا کی جانب سے سمجھتا ہے اور اس کا احسان مانتا ہے۔ اس کی خوبی بیان کرتا ہے۔ کافر اصل کار پرداز کا انکار کرتا ہے اور چیزوں کو دنیوی اسباب کے تناظر میں دیکھتا ہے۔
انجیلِ مقدس میں مروی ہے کہ مسیح علیہ السلام اپنے شاگردوں کے ساتھ کھانے پر بیٹھے اور فرمایا کہ آج جو میرے ساتھ طباق میں ہاتھ ڈالتے ہین ان میں سے ایک مجھے پکڑوائے گا۔ شاگرد پریشان ہو گئے اور استفسارات کرنے لگے۔ کلمۃ اللہ نے فرمایا، "ابنِ آدم کے حق میں تو جو لکھا تھا ہوتا ہی ہے مگر افسوس ہے اس شخص پر جو اس کا وسیلہ بنتا ہے۔” (متی – ۲۶ – ۲۵)
عیسی ابنِ مریم علیہ السلام بڑے جلیل القدر نبی تھے۔ ان کی امت انبیا علیہم السلام کی امتوں میں سب سے بڑی ہے۔ قرآن میں ان کے پیدا ہونے، مرنے اور اٹھائے جانے کے دن پر سلام کہلوایا گیا ہے۔ (سورۂ مریم – ۳۳) انھیں باری تعالیٰ نے مطلع فرما دیا تھا کہ یہوداہ اسکریوتی آپ کو پکڑوائے گا تاکہ رومی گورنر آپ کو پھانسی دے سکے۔ یہوداہ آپ کا شاگرد تھا اور بارہ منتخب رسولوں میں شمار ہوتا ہے۔ آپ نے اس کے ساتھ کچھ برا نہیں کیا تھا۔ اس کو ابدی اور سرمدی انعامات سے روشناس کروایا تھا۔ ہدایت دی تھی۔ اس کا بھلا چاہا تھا۔ مگر اس نے یہ لعنت کا طوق اپنے گلے میں ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ اب ذرا مسیح ابنِ مریمؑ کی شکر گزاری ملاحظہ ہو۔ آپ نے اسے پکڑا نہیں۔ اسے روکنے کی کوشش نہیں فرمائی۔ اس سے بحث و تمحیص نہیں کی۔ یہ نہیں چاہا کہ اس سے فرار اختیار کریں۔ چھپے نہیں۔ اسے دور نہیں کیا۔ کیوں؟ کیونکہ جانتے تھے کہ فاعلِ حقیقی کا فیصلہ یہی ہے کہ پکڑے جائیں۔ یہوداہ اسکریوتی تو محض ایک وسیلہ ہے۔ ایک سبب ہے۔ ایک معلول ہے۔ علت اور مسبب تو وہ ذات ہے جس نے فیصلہ کر لیا ہے کہ مسیح ابنِ مریمؑ پکڑوایا جائے۔ اب ذرا انجیل کی آیتِ مذکور حرف بحرف پھر پڑھیے۔
اِبنِ آدم تو جَیسا اُس کے حق میں لِکھا ہے جاتا ہی ہے لیکِن اُس آدمِی پر افسوس جِس کے وسِیلہ سے اِبنِ آدم پکڑوایا جاتا ہے! اگر وہ آدمِی پَیدا نہ ہوتا تو اُس کے لِئے اچھّا ہوتا۔
یعنی یہوداہ کا معاملہ اس کے ساتھ ہے۔ اس نے اپنے لیے نہایت برا چاہا کہ اس لعنت کے کام کے لیے خود کو پیش کیا۔ مگر مسیح ابنِ مریم علیہ السلام کا بھلا برا یہوداہ اسکریوتی سے منسلک نہیں۔ ان کے لیے ایسا نہیں کہ یہوداہ نہ ہوتا تو وہ پکڑوائے نہ جاتے۔ جو ان کے حق میں لکھا تھا وہ یونہی ہو کر رہنا تھا۔ وہ نبی تھے۔ یہ ان سے بہتر کون جانتا تھا؟ اور یہی شکر گزاری ہے۔
آپ کو شاید حیرت ہو کہ باری تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں کئی جگہ خود کو بھی شکر گزار قرار دیا ہے۔ مثال کے طور پر ایک آیت دیکھیے:
اِنَّ الَّـذِيْنَ يَتْلُوْنَ كِتَابَ اللّـٰهِ وَاَقَامُوا الصَّلَاةَ وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنَاهُـمْ سِرًّا وَّعَلَانِيَةً يَّرْجُوْنَ تِجَارَةً لَّنْ تَبُوْرَ لِيُـوَفِّـيَـهُـمْ اُجُوْرَهُـمْ وَيَزِيْدَهُـمْ مِّنْ فَضْلِـهٖ ۚ اِنَّهٝ غَفُوْرٌ شَكُـوْرٌ
(سورۂ فاطر – ۲۹-۳۰)
بے شک جو لوگ اللہ کی کتاب پڑھتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور پوشیدہ اور ظاہر اس میں سے خرچ کرتے ہیں جو ہم نے انہیں دیا ہے وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں کہ اس میں خسارہ نہیں۔ تاکہ اللہ انہیں ان کے اجر پورے دے اور انہیں اپنے فضل سے زیادہ دے، بے شک وہ بخشنے والا قدردان ہے۔
یہ احمد علی لاہوری صاحب کا ترجمہ ہے۔ ترجمے سے قطعِ نظر، آپ نے دیکھا کہ باری تعالیٰ نے خود کو شکور پکارا ہے۔ یہ تفضیل کا صیغہ ہے۔ معنیٰ ہے بہت شکر کرنے والا۔ قرآن ہی میں بندوں کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔ جیسے:
يَعْمَلُوْنَ لَـهٝ مَا يَشَآءُ مِنْ مَّحَارِيْبَ وَتَمَاثِيْلَ وَجِفَانٍ كَالْجَوَابِ وَقُدُوْرٍ رَّاسِيَاتٍ ۚ اِعْمَلُوٓا اٰلَ دَاوُوْدَ شُكْـرًا ۚ وَقَلِيْلٌ مِّنْ عِبَادِىَ الشَّكُـوْرُ
(سورۂ سبا – ۱۳)
جو وہ چاہتا اس کے لیے بناتے تھے قلعے اور تصویریں اور حوض جیسے لگن اور جمی رہنے والی دیگیں، اے داؤد والو تم شکریہ میں نیک کام کیا کرو، اور میرے بندوں میں سے شکر گزار تھوڑے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ باری تعالیٰ کیسے شکر گزار ہو سکتا ہے؟ عام مفہوم جو لیا جاتا ہے اس لحاظ سے تو ترجمہ ہی بدلنا پڑے گا جیسے لاہوری صاحب نے کیا ہے اور پہلی آیت میں شکر گزار کی بجائے قدر دان کر دیا ہے۔ لیکن اگر حقیقی مفہوم دیکھا جائے تو بات سمجھ میں آنے والی ہے۔ باری تعالیٰ اپنے بندوں سے چاہتا ہے کہ وہ فاعلِ حقیقی کو پہچانیں۔ یعنی دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ سمجھ لیں کہ کرنے والا اصل میں کون ہے۔ جو سمجھ جائے گا وہ شکر گزار ہو گا۔ دوسری جانب وہ خود شکر گزاری یوں کرتا ہے کہ اس کے بندے جو کچھ اس کی خاطر کرتے ہیں ان بندوں کو ان نیکیوں کا فاعل تسلیم کرتا ہے اور پہچانتا ہے کہ کہ انھوں نے اس کی خاطر کچھ ایسا کیا جو کرنا گویا انھیں لازم نہ تھا۔ وہ چاہتے تو بدی کی راہ بھی اختیار کر سکتے تھے۔ مگر انھوں نے نیکی چنی، اپنے رب کی راہ چلے۔ رب شکریہ ادا کرتا ہے۔ بڑے سعادت مند بندوں کا مقام ہوتا ہو گا یہ۔
بر سبیلِ تذکرہ، شاہ عبدالقادرؒ نے غالباً قرآنِ مجید کا پہلا اردو ترجمہ کیا تھا۔ انھوں نے اکثر جگہوں پر شکر کے ترجمے میں حق ماننا لکھا ہے۔ یعنی حقیقت پہچاننا۔ بات کی تہہ کو پہنچ جانا۔ احسان تسلیم کرنا۔ یہ میری دانست میں سمجھنے والوں کے لیے نہایت اچھا ترجمہ ہے۔
بات سمیٹتے ہیں۔ شکر مفت پر ہوتا ہے۔ قیمت دے کر نہیں۔ حساب کتاب اور جمع تفریق کرنے والے کے لیے تشکر محال ہے۔ اس کی زندگی مادی دنیا اور اس کے اسباب و عللل کے گورکھ دھندوں کی اسیر ہوتی ہے۔ وہ بیچارہ تو خود کو ڈرائیور سمجھتا ہے۔ شکر کس کا کرے؟ حق کس کا مانے؟ انسان شکر گزار تبھی ہو سکتا ہے جب اپنے ہر نفع نقصان اور زندگی کے تمام حوادث و سوانح کو اپنے رب کی طرف سے جان لے۔ فاعلِ حقیقی کی پہچان کرے۔ لوگوں کو، چیزوں کو، اسباب کو، حالات کو اپنے بھلے برے کا ذمہ دار نہ سمجھے۔ اپنی نسبت بھی یہ عرفان حاصل کرے کہ وہ کسی شے کا مختار نہیں۔ اس نے زندگی کی قیمت نہیں دے رکھی۔ سب کچھ مفت ملا ہے۔ اس مفت کی شکر گزاری ہے۔ اس ذات کی بڑائی ہے جو سب کرنے والی ہے۔ جو ہر فعل کی فاعلِ حقیقی ہے۔
الحمدللہ۔ خوبی اس پروردگار کی ہے اور تعریف اس ذاتِ بے ہمتا کو پھبتی ہے جو دو جہانوں کا رب ہے اور ہر چیز کا کار پرداز ہے۔ ہماری آپ کی کیا خوبی، کیا تعریف، کیا اوقات؟ پدی اور پدی کا شوربہ!