آدمیوں کی طباعی اور ذہانت آج کل اس پیمانے سے ماپی جاتی ہے کہ وہ کن چیزوں پر سوال اٹھا سکتے ہیں۔ میں اس مقیاس کو بہت ناقص سمجھتا ہوں کیونکہ سوال تو آپ ان چیزوں پر بھی اٹھا سکتے ہیں جن کا آپ کو کچھ علم یا تجربہ ہی نہ ہو اور وہ درحقیقت وجود اور معنویت کی حامل ہوں۔ مثلاً ادب اور اس کی افادیت پر کسی کی انگشت نمائی سے اس کے ذہن کا سرگرم ہونا تو ثابت ہوتا ہے مگر یہ نتیجہ بھی ساتھ ہی برآمد ہوتا ہے کہ معترض کا علم محدود اور فکر خام ہے۔
خوش قسمتی سے ہمارے پاس ایک نہایت عمدہ متبادل موجود ہے جس کی بنیاد پر کسی فرد یا جماعت کی راست فکری اور منطقیت کی کہیں زیادہ بہتر پیمائش کی جا سکتی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ یہ معلوم کیا جائے کہ لوگ کن چیزوں کو طے شدہ یا ماورائے سوال خیال کرتے ہیں۔ گویا بجائے یہ دیکھنے کے کہ کوئی کتنی چیزوں پر سوال اٹھاتا ہے یہ دیکھا جائے کہ کوئی کن چیزوں کو خودبخود اور خواہ مخواہ طے سمجھتا ہے۔ اس میں فائدہ یہ ہے کہ موصوف کو لاعلمی یا بےخبری وغیرہ کی رعایت دینا ناممکن ہو جاتا ہے۔ وہ اگر کسی چیز کو طے سمجھتا ہے تو اصولی طور پر اس کے پاس اس کی وجہ اور دلیل بھی ہونی چاہیے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں انسان کا حقیقی علم اور دانائی کھل کر سامنے آتی ہے۔
انسانیت کو کچھ غلط فہمیاں ورثے میں ملی ہیں۔ روایات بتاتی ہیں کہ جنابِ آدمؑ جب جنت سے نکالے گئے تھے تو روتے اور توبہ کرتے تھے کہ اتنی بڑی نعمت کا کفران کیوں کیا۔ میں اور آپ تو بہرحال جنت میں کبھی رہے ہی نہیں۔ رونا البتہ بعینہٖ وہی چل رہا ہے۔ میں تقریباً گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہا ہوں مگر اب بھی اوسطاً دن میں ایک بار تو سن ہی بیٹھتا ہوں کہ زمانہ بہت خراب ہو گیا ہے۔ اگلے وقتوں کے لوگ بہت اچھے، بڑے پاکباز، نہایت نیک ہوا کرتے تھے۔ حال ہی میں پڑھا کہ نادر شاہ جب ایران پر حملہ آور ہوا تو وہاں کے بادشاہ کی حالت یہ تھی کہ خوب رو لونڈوں کو ننگا کر کے گھٹنوں کے بل چلواتا تھا، نوکر ان کی رانوں کے درمیان خوشبودار تیل ملتے جاتے تھے اور ظلِ سبحانی سرِ دربار یہ نظارہ دیکھ دیکھ کے خوش ہوتے رہتے تھے۔ ہٹلر ماضی میں تھا، حجاج ماضی میں تھا، شداد ماضی میں تھا، نمرود ماضی میں تھا، فرعون ماضی میں تھا، قومِ لوط ماضی میں تھی، طوفانِ نوح ماضی میں تھا، ابوجہل ماضی میں تھا، جنگ ہائے عظیم ماضی میں تھیں، بلھے شاہ کوقصور میں دفن نہ ہونے دینے والے قل اعوذیے ماضی میں تھے، پیغمبروں کے قاتل ماضی میں تھے، ننگِ ملت ننگِ دیں ننگِ وطن میر صادق اور میر جعفر ماضی میں تھے، سکھّا شاہی ماضی میں تھی مگر ماضی بہت اچھا تھا۔ دھت تیرے کی!
ماضی کا مزعومہ حسن اور پاکیزگی ان چیزوں میں سے ہے جن پر مذہبی اور غیرمذہبی افراد اور معاشرے یکساں طور ایمان لائے ہوئے ہیں۔ یاد کرتے ہیں، آہیں بھرتے ہیں، لوٹ جانا چاہتے ہیں۔ خدا جانے کیوں؟ ماضی میں جھانک کر دیکھیں تو آپ ان کو یونہی چیختا چلاتا پائیں گے جیسے اب واویلا کرتے رہتے ہیں۔ خدا جانے کون سی اقدار کا ماضی کے حوالے سے ذکر ہوتا ہے؟ ایک سے ایک حرامی اور بھڑوا آپ کو ماضی میں مل جائے گا۔ جس کعبہ میں کسی ایسی ویسی حرکت کا عام مسلمان سوچ بھی نہیں سکتا وہاں مبینہ طور پر ننگ دھڑنگ عرب عورتیں طواف کیا کرتی تھیں۔ جس برِّصغیر میں مغربی تہذیب کے ناپاک اثرات کا ماتم صبح و شام جاری رہتا ہے اس میں دیوداسیاں زمانۂِ ماقبلِ تاریخ سے پجاریوں کے نیچے لیٹتی آئی ہیں۔ دنیا کی کون سی تہذیب ہے جس نے اپنی تاریخ کے کسی نہ کسی دور میں ننگے مجسموں کو اپنے بازاروں، عوامی مقامات اور معبدوں میں شہوت رانی کرتے ہوئے نہ دکھایا ہو؟ کس ملک میں کس زمانے میں پرلے درجے کے جھوٹے، فریبی اور چھلیے موجود نہیں رہے؟ ماضی کے کس تمدن نے اپنے نابغوں، فنکاروں، اہلِ علم، انبیا، اصفیا، اولیا کے ساتھ ناقدری، حقارت اور شقاوت کا رویہ نہیں رکھا؟ کس معاشرے میں عوام خواص کے ہاتھوں کھلونا نہیں بنتے رہے؟ کس ریاست میں مذہب اور اقتدار کے تانوں بانوں سے کاروبار نہیں بُنے جاتے رہے؟ کس جگہ، کس دور میں ابھرنے والی حق کی آوازیں کچل کر سرفرازوں کو پیوندِ زمین کر دینے کی سرتوڑ کوششیں نہیں ہوتی رہیں؟ کوئی بتائے تو وہ زریں عہد چشمِ فلک نے کب دیکھا جب انسان نے خود خدا کو اپنے نفس کی بھینٹ چڑھانے کی سعیِ نامشکور ترک کر دی؟
پھر بہت سے لوگ یہ بھی فرض کیے پھرتے ہیں کہ پرانے لوگوں کی غذائیں خالص، رہن سہن فطرت کے بہت قریب اور صحت و قوت بےمثال ہوا کرتی تھی۔ ایسی زٹلیات آپ نے بھی بہت سی سنی ہوں گی اور ممکن ہے خود بھی اپنے یا اپنے بزرگوں کے ماضی کے متعلق ہانکتے رہے ہوں۔ بنیاد ان کی بھی کوئی نہیں۔ کوئی دستاویزات اور آثار مجھے تو اس بات کے نہیں ملے کہ ماضی کا ہر شخص رستمِ زمان ہوا کرتا تھا۔ لولے، لنگڑے، ٹنڈے، دبلے، پتلے، موٹے، کالے کلوٹے، بیمار، بدبودار، ہر قسم کے عیبی انسان پرانی کتابوں سے لے کر وڈیوز تک میں البتہ نظر آ جاتے ہیں۔ پھر اگر آپ تھوڑا غور فرمائیں تو دیکھیں گے کہ پہننے اوڑھنے کے کپڑوں سے لے کر بودوباش کے مکانوں تک موسم اور آفاتِ سماوی وغیرہ سے محفوظ رہنے کے لیے نہایت شاندار اور آرام دہ سہولیات انسان ہر زمانے میں ایجاد کرتا آیا ہے۔ ان کے آثار کی موجودگی میں یہ یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ پرانے لوگ کسی طرح بھی ہم سے کم نازک مزاج ہوں گے۔ سہولیات، تعیشات اور آسائشوں کی موجودگی میں لوگوں کا تندرست اور جفاکش ہونا ایسا ہی ہے جیسے بارش کے بعد کیچڑ نہ ہونا۔
مگر یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔ ہم صرف ماضی کو اقدار اور فطرتیت کے حوالے سے اچھا سمجھنے پر اکتفا نہیں کرتے۔ ہم اپنے حال کو ٹیکنالوجی اور علم کے حوالے سے لاثانی خیال کرنے کی ازلی بیماری میں بھی مبتلا ہیں۔ یعنی یہ بھی انسان ہر زمانے میں سمجھتا رہا ہے کہ وہ علمی اور تکنیکی ترقی کے جس مقام پر پہنچ گیا ہے اس کی نظیر پہلے نہیں ملتی۔ شاید یہ یادِ ماضی اور اس سے وابستہ موہوم محرومیوں کی تلافی کرنے کی ایک لاشعوری کوشش ہے۔ میں نے اس مفروضے کو بھی اتنا ہی احمقانہ اور بےبنیاد پایا ہے جتنا کہ پہلے کو۔
ماضی کے لوگوں کو بےعلم اور سادہ سمجھنے کا رویہ بہت حد تک ہماری اپنی کم علمی اور سادہ لوحی پر دلالت کرتا ہے۔ مثلاً ہم یہ تو دیکھ لیتے ہیں کہ اہرامِ مصر کے پائے کی تعمیرات ہم اپنے تمام علم و فضل اور بےمثل ٹیکنالوجی کے ساتھ بھی کرنے سے قاصر ہیں مگر یہ امکان تسلیم کرنے سے طبعاً جھجھکتے ہیں کہ فراعینِ مصر ہم سے زیادہ ترقی یافتہ رہے ہوں گے۔ ہم نے الل ٹپ فرض کر رکھا ہے کہ ارتقا ایک سیدھی لکیر کا نام ہے جس پر سب سے زیادہ فاصلہ طے کرنے والی تہذیب آج کی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ برج الخلیفہ کو تو ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کا شاہکار قرار دے کر ناز کرتے ہیں مگر ان اہرامِ مصر کی نسبت جن کی ندرت و کمال کی خاک کو بھی برج الخلیفہ نہیں پہنچ سکتا، اینڈی بینڈی توجیہات تراش کے خود کو مطمئن کر لیتے ہیں۔ بہرحال، خود سے جھوٹ بولنا اس سے زیادہ آسان ہے کہ آپ کو اپنی قابلیت اور لیاقت کے زعم سے ہاتھ دھونا پڑیں!
غلاموں سے بیگار لے کر اہرام تعمیر کرنے کے مفروضوں سے لے کر بیرم کے ذریعے وزنی پتھروں کو اوپر پہنچانے تک کے ہر نظریے پر اس تعصب کی چھاپ دکھائی دیتی ہے کہ اگلے بالکل الو کے پٹھے تھے جنھوں نے محض اتفاق سے ایسے شاہکار بنا لیے جو ہم (اتفاق ہی سے) اپنی سائنسی ترقی کے باجود نہیں بنا سکتے۔ آئن سٹائن ہمارے زمانے میں ذہانت کی علامت کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ میں اس کا نہایت مداح ہوں مگر اکثر سوچتا ہوں کہ اس نے تو محض ایک نظریہ پیش کیا ہے اور ہم اسے اتنا غیرمعمولی انسان خیال کرتے ہیں۔ کیا یہ ظلم نہیں کہ اس سے پچھلے جو صرف نظریے نہیں بلکہ کائنات کے بعض اٹل قوانین پیش کر کے گئے ہیں محض اس لیے کم ترقی یافتہ خیال کیے جائیں کہ ہمارے پاس ان کے زمانے اور حالات کے تمام کوائف کماحقہً موجود نہیں ہیں؟ علم کا کمال اصول و قوانین دریافت کرنا ہے یا محض مفروضات و نظریات کے حمل ٹھہراتے رہنا؟ کیا قوانین تک پہنچنے والے لوگ اور ان کے زمانے سچ مچ ایسے ہی اناڑی، بےخبر اور کم علم تھے جنھوں نے محض اٹکل پچّو سے آفاقیت اور ہمہ گیری کے ستاروں پر کمندیں ڈال لی تھیں؟ اگر ایسا ہے تو ہم اپنے تبحر و ترقی کے باوجود نئے اصول کیوں نہیں دریافت کر پا رہے؟ یا کائنات میں اصول ہی ختم ہو گئے ہیں؟ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ہم حتمی علم تک پہنچ گئے ہیں۔ کیا واقعی؟
میں اپنے عہد میں خطاطی اور کتابت کو زوال پزیر ہوتے اور فانٹس کو اس کی جگہ لیتے دیکھ رہا ہوں۔ میں چشمِ تصور سے وہ وقت بھی دیکھ سکتا ہوں جب مثلاً آنے والے زمانوں کے کچھ دانشور مل کر اس بات پر بحث کر رہے ہوں کہ آیا لوگ سچ مچ ہاتھ سے یہ سب لکھ لیتے تھے یا یہ محض اساطیر الاولین ہیں۔ پھر میرے پاس ایک موبائل فون ہے جس کے وسیلے سے میں گھر بیٹھے دنیا بھر میں اپنے پیاروں کی خیر خبر لیتا رہتا ہوں۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ صرف ایک جوہری جنگ کے نتیجے میں میرے عہد کی یہ مہتم بالشان ترقی اپنے پہلے ہی موہوم آثار کے ساتھ فنا ہو سکتی ہے۔ صدیوں بعد جب بچے کھچے انسانوں سے نمو پائی ہوئی کوئی تہذیب اوج کو پہنچے گی اور اس کے لوگ میرے شہر کی کھدائی کر کے ویسی ہی اینٹیں، دھاتی ٹکڑے اور ہڈیوں کے سفوف برآمد کریں گے جیسے ہم کیا کرتے ہیں تو شاید یہ سوچے بنا نہیں رہ سکیں گے کہ ان گنواروں کے پاس تو ڈاک کا نظام تک پورے طور پر ارتقا پزیر نہیں ہو سکا تھا!
مسئلہ تو یہی ہے کہ اگلے زمانوں کے غیرمعمولی آثار ہم جابجا دیکھتے ہیں مگر کوائف نہیں ملتے۔ شیخی اور تکبر الگ ہمیں اپنے مرتبے اور کمال کے ادعا پر اکساتے رہتے ہیں۔ ناچار کچے پکے شواہد ہی سے وہ تصویریں بنا کر دانش کی داد دینی پڑتی ہے جن میں عہدِ عتیق کے وحشی منظرنامے پر کچھ لَدَّھڑ قسم کے اندھے پاؤں تلے بٹیریں دابے بیٹھے ہوں۔ کیا مذاق ہے نا؟ چلیے، کوئی بات نہیں۔ کل کو یہی تمسخر ہمارے نطفوں سے نکلی ہوئی متکبر نسلیں ہمارے ساتھ بھی کر کے ادھار چکتا کر دیں گی!
ماضی اور حال سے وابستہ ہر خودفریبی کی جڑیں مستقبل کی غیریقینیت میں گہری پیوست ہوتی ہیں۔ انسان جب ماضی پر اس حال میں نگاہ کرتا ہے کہ وہ اس کے ابتلاؤں اور مصیبتوں سے کسی نہ کسی طرح صحیح سلامت نکل کر لمحۂِ موجود تک پہنچ آیا ہے تو اس کے ذہن کے نہاں خانوں میں کہیں یہ خیال جاگزین ہو جاتا ہے کہ ماضی اتنا برا بھی نہیں تھا جتنا تب معلوم ہوتا تھا۔ پھر وہ مستقبل کے امکانات پر نظر دوڑاتا ہے تو غیریقینی حوادث و سوانح کی دھند اس کے تخیل کی طنابیں توڑ کر رکھ دیتی ہے۔ وہ مستقبل کی پراسراریت اور اندھیروں سے ڈر جاتا ہے۔ اسے ماضی پر خواہ مخواہ پیار آنے لگتا ہے۔ گزرا ہوا زمانہ کچھ زیادہ ہی سیدھا سادہ، معصومانہ اور فطری لگنے لگتا ہے۔ اسی کیفیت میں وہ امکانات کی آندھیوں میں دیے جلانے کی کوشش کرتا ہے۔ خود کو طفل تسلیاں دیتا ہے۔ ہم بڑے ہو گئے ہیں۔ انسانی تہذیب بلوغت کو پہنچ گئی ہے۔ پہلے سے حالات نہیں رہے۔ ہم نے نظامِ فطرت کی باگیں اپنے ہاتھوں میں لے لی ہیں۔ ہمیں کچھ نہیں ہو گا۔ ہم پچھلوں سے زیادہ طاقت ور ہیں۔ وہ تو نرے بدھو تھے۔ ہم سا ہو تو سامنے آئے!
بات یہ ہے کہ زمانے سے متعلق انسان جو دھوکا خود کو دیتا ہے وہ دودھاری تلوار ہے۔ ایک طرف تو اس گمان کی کاٹ ہوتی ہے کہ اسلاف کوئی آسمانی مخلوق تھے جو فرشتگی کے قریب تر تھی اور دوسری جانب اس زعم کی آب کہ ہماری چالاکی، تدبر اور علم و فضل کو اگلے نہیں پہنچ سکے۔ دونوں طرف کے وار انسان کے اس اخلاقی وجود کو چھلنی کر دیتے ہیں جو زمانے کے اتھاہ سمندر میں ڈوبتے چلے جانے کی بجائے ناؤ کی طرح اس کی لہروں پر کھیلنے کے لیے تخلیق کیا گیا تھا۔ انسان خیال کرتا ہے کہ اخلاق کی عمدگی اور زندگی کی پاکیزگی کے اعلیٰ ترین مدارج کو جنھیں پہنچنا تھا وہ پہنچ گئے اور کھیل ختم ہو گیا۔ اپنی ترقی کا ڈھکوسلا اسے پرتعیش، بےخطر اور جاودانہ زندگی کی امید دلاتا ہے جس کے پھندے میں آ کر ضمیر کی رہی سہی آواز بھی بیٹھ جاتی ہے۔
اس سے بھی بڑا لطیفہ یہ ہے کہ اگرچہ اس صریح غیرعقلی، غیرفطری اور غیرانسانی پراپیگنڈے کے خلاف تاریخ میں سب سے قوی آوازیں صحائفِ اربعہ میں اٹھائی گئی ہیں مگر اس کے باوجود اس کے سب سے بڑے مبلغ بھی خود مذہبی اشرافیہ اور شرعی ادارے ہی رہے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ دیکھیے کہ سب ملّا، پنڈت، پادری، ربّی، مربّی ہر گھڑی یہی غل غپاڑا کرتے رہتے ہیں کہ زمانے کی صورتِ حال سخت نزاکت اختیار کر گئی ہے اور قیامت بالکل سر پر ہے۔ یہ غوغا آپ کو قبلِ مسیح بھی ویسے ہی سنائی دے گا جیسے آج ہے۔ اس سے جو فوائد مذہبی بنیوں کو حاصل ہوتے ہیں ان کا اندازہ کرنا چنداں مشکل نہیں مگر میں ان سے صرفِ نظر کر کے یہاں صرف یہ اشارہ کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں نے چار مشہور الہامی مصادر یعنی توریت، زبور، انجیل اور قرآن کو حتی المقدور توجہ، تامل اور تردد سے پڑھنے کی کوشش کی ہے اور ان کے معانی و متبادرات پر ٹھہر ٹھہر کر غور کیا ہے۔ مجھے نہ صرف یہ کہ زمانے سے متعلق کسی مذکورہ بالا غلط فہمی کی ایک بھی شہادت میسر نہیں آئی بلکہ الٹا جابجا اس عادل خدا کا جلال دکھائی دیا ہے جو کسی بھی زمانے میں نہ فساد کو ایک حد سے اوپر جانے دیتا ہے کہ دنیا جہنم بن جائے اور نہ اس کی مکمل بیخ کنی کر کے زمین پر جنت کا کوئی نقشہ قائم کرتا ہے۔ جہاں تک میں نے دیکھا ہے چاروں الہامی کتب کا متفقہ فیصلہ یہ ہے کہ دنیا امتحان گاہ ہے اور جنت دوزخ دونوں کے آدرش اس قیامت کے بعد صورت پزیر ہوں گے جو انسانوں پر کسی دن ان کی غفلت میں اچانک ہی آ پڑے گی۔ انھی کتب میں ان امّتوں کے آثار و اذکار بھی ملتے ہیں جن کی نسبت باری تعالیٰ بیان کرتا ہے کہ انھیں اس نے ہم لوگوں سے زیادہ قوت، شان اور علم بخشا تھا۔ پھر وہ یہ امکان بھی ہمارے ذہن نشین کرواتا ہے کہ کچھ بعید نہیں جو ہماری بساط ہمارے تکبر اور رعونت سمیت لپیٹ کر ہم سے بہتر قومیں ہماری جگہ لے آئی جائیں۔ روایات، تفاسیر اور اس نوع کے دیگر ثانوی مذہبی مصادر کی بات البتہ جدا ہے۔ ان میں دھڑادھڑ وہ من گھڑت دیومالائیں داخل کر دی گئی ہیں جن کی مدد سے پجاری لوگوں کو ڈرا دھمکا کر اپنا الو سیدھا کرتے رہتے ہیں۔
زمانے کے بارے میں ان سنگین دھوکوں کا سب سے مہلک نتیجہ یہ ہے کہ لوگ مادی، سماجی اور عملی ترقی کے تو چھوٹے چھوٹے کمالات پر لپک لپک کر اس خیال سے داد دیتے ہیں کہ ایسی جدت، ایجاد اور سہولت ہم سے پہلوں کے تصور بھی میں بھی بھلا کب آئی ہو گی مگر اخلاقی، فکری اور فنی بزرگی کو ہمیشہ اس گمان میں نظرانداز کر دیتے ہیں کہ اگلے لوگ ہمارے زمانے کے پست ہمتوں سے کہیں زیادہ پاکیزہ، فطری اور موثر کام کر گئے ہیں اور اب ان جیسا کوئی پیدا ہو ہی نہیں سکتا۔ فن کاروں، فلسفیوں، مصوروں، ادیبوں، مصلحوں، نبیوں اور ولیوں کی تعلیمات اور کمالات کو معاشروں نے اسی وجہ سے کبھی بھی درخورِ اعتنا نہیں سمجھا کہ لوگ ان خودساختہ دیومالاؤں میں مست ہوتے ہیں جن میں ان کے اسلاف فکر و فن اور فلسفہ و اخلاق کی لافانی بلندیوں کو پہلے ہی چھو کر خود بھی ناقابلِ تسخیر بُتوں میں تبدیل ہو چکے ہوتے ہیں۔
اب میں آپ کو غالبؔ کا وہ شعر سناتا ہوں جس سے میں نے اس مضمون کا عنوان اخذ کیا ہے۔
تو اے کہ محوِ سخن گسترانِ پیشینی
مباش منکرِ غالبؔ کہ در زمانۂِ تست
"اے تُو کہ پرانے شاعروں میں کھویا ہوا ہے!
غالبؔ کا انکار مت کر جو تیرے اپنے زمانے میں ہے۔”
اگر آپ کا خیال یہ ہے کہ اگلے لوگ نہایت سخن فہم ہوا کرتے تھے تو رجوع فرما لیجیے۔ غالبؔ کے سوانح شاہد ہیں کہ ان کے ساتھ وہ انہونی بتکرار ہوتی رہی تھی جسے پنجابی محاورے میں کُتّے والی کہتے ہیں۔ یقین جانیے کہ آپ خود بھی اس زمانے میں ہوتے تو غالبؔ کی چنداں قدر نہ کرتے۔ وہ آپ کو اس لائق ہی نہ معلوم ہوتے۔ اگر آپ ان کے قرض خواہ ہوتے تو پھر تو شاید یہ تصور بھی نہ کر سکتے کہ اس مردوے کی قبر پر کبھی کوئی چھینٹا مارنے بھی آئے گا۔ اور بالفرض غالبؔ آج پیدا ہو جائیں تو بھی آپ دیکھیں گے کہ سنتِ آدمیت کے تمام آداب ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ہمارے سب جغادری ادیب اور ناقدین یکسو ہو کر ان کے ساتھ عین مین کتے والی ہی کریں گے۔ اتنا سا فرق شاید ہو کہ آغا جان عیشؔ والا قطعہ شمس الرحمٰن فاروقی ناول میں ڈھال کر پیش فرما دیں!