فارسی کی مشہور مثل ہے:
ولی را ولی می شناسد۔
ولی کو ولی پہچانتا ہے۔ کہنے دیجیے کہ میں بھی کمینگی کی اکثر اقسام کو اس لیے اچھی طرح پہچانتا ہوں کہ عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں۔ اور شاید گزرتی رہے گی۔ کمینگی کا لفظ یہاں میں نے وسیع ترین مفہوم میں استعمال کیا ہے۔ آپ اس سے مراد اخلاقی جرائم سے لے کر املا کی غلطیوں تک کچھ بھی لے سکتے ہیں۔
اکثر سنا جاتا ہے کہ انگریزی، عربی، فارسی وغیرہ کا فلاں لفظ جو لطف دیتا ہے وہ اس کے اردو متبادل میں نہیں پایا جاتا۔ مثال کے طور پر ایک صاحب فرمانے لگے کہ نیچر (Nature) کے لفظ میں جو وسعت اور آفاقیت پائی جاتی ہے وہ فطرت میں نہیں ملتی۔ یہی وجہ ہے کہ سرسید اور حالیؔ وغیرہ نے اردو میں بھی اسے جوں کا توں برتنے کا فیصلہ کیا۔ اب حالیؔ اور سرسید پر گرفت تو ہم نہیں کرنے والے مگر ان صاحب کے لتے لینا ذرا ضروری معلوم ہوا۔ سو ہم نے لیے اور اب چوک پر لٹکانے کا قصد بھی کیا ہے۔
سرمۂ مفتِ نظر ہوں مری قیمت یہ ہے
کہ رہے چشمِ خریدار پہ احساں میرا
جیسا میں نے پہلے عرض کیا ہے، مجھے گھمن گھیریوں سے آشنائی بڑی حد تک اس وجہ سے ہے کہ میں خود ایسا کرتا رہا ہوں۔ اور نہ صرف کرتا رہا ہوں بلکہ اکثر لوگوں کے برعکس اپنے رویوں کو گاہے گاہے غور اور احتساب کی نظر سے دیکھنے کا بھی اتفاق ہوا ہے۔ میں نے پایا ہے کہ یہ دعویٰ ایک ہوائی سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتا کہ اردو لغت کو محض اس لیے رد کر دینا چاہیے کہ اس میں دوسری زبانوں کے الفاظ کی سی دلالتیں اور معانی نہیں پائے جاتے۔
لسانیات کے طلبہ اس اصول سے واقف ہیں کہ کوئی سے دو الفاظ کا مکمل اور مثالی طور پر ہم معنیٰ ہونا محال ہے۔ مختلف زبانیں تو ایک طرف رہیں، ایک ہی زبان میں ایک جیسے سمجھے جانے والے الفاظ کے مفاہیم اور مضمرات میں بھی اکثر زمین آسمان کا فرق پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اردو میں رائج یہ دو الفاظ دیکھیے:
- دن
- روز
بظاہر یہ ہم معنیٰ ہیں اور درسی کتب کی حد تک انھیں ایسا سمجھا بھی جا سکتا ہے۔ مگر غور کی نظر سے دیکھیے تو معلوم ہو گا کہ روز کے بہت سی جگہوں پر وہ معانی نہیں جو دن کے لفظ میں پائے جاتے ہیں۔ مثلاً دن نصیب یا بخت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ فلاں کے اچھے دن آئے ہیں۔ یہ مفہوم روز میں نہیں پایا جاتا۔ یا دن سے مراد بعض اوقات زمانہ اور وقت لیا جاتا ہے۔ جیسے کہتے ہیں کہ ان دنوں انگریزی کا طوطی بول رہا ہے۔ یا پھر کبھی کبھی اس کا مطلب موسم بھی ہوتا ہے۔
دختران چمن کے قدموں پر
سر جھکاؤ بہار کے دن ہیں
روز کے لفظ میں یہ سب دلالتیں نہیں ملتیں۔ اسی طرح جو تیور روز کے ہیں وہ دن میں نظر نہیں آتے۔ یہی قصہ تمام زبانوں کے تقریباً تمام الفاظ کا سمجھنا چاہیے۔ پس ثابت ہوا کہ دنیا میں بولی جانے والی زبانوں کے کوئی دو یا دو سے زیادہ الفاظ ایسے نہیں جو عین ایک ہی معنیٰ رکھتے ہوں۔ لسانیات کی اصطلاح میں یہ حقیقت یوں بیان کی جاتی ہے کہ الفاظ مترادفات تو رکھتے ہیں مگر مرادفات نہیں رکھتے۔ مرادف اسے کہتے ہیں کہ معنوی اعتبار سے لفظ کے بالکل برابر کوئی لفظ پایا جائے۔ جبکہ مترادف یہ ہے کہ بالکل برابر تو نہ ہو مگر قریب قریب معانی دے۔
اب جبکہ ہم نے یہ سمجھ لیا کہ ہر لفظ معنوی اعتبار سے منفرد اور یکتا ہوتا ہے اور بالکل اس جیسا لفظ شاذ ہی دنیا میں پایا جاتا ہے تو باور کرنا چاہیے کہ یہ معاملہ کسی ایک زبان سے خاص نہیں۔ دنیا کی ہر زبان کا ہر لفظ اصولاً دوسری زبانوں اور خود اس زبان کے تمام الفاظ سے ممتاز ہے۔ اس جیسے معانی نہ کسی اور لفظ میں ہو سکتے ہیں نہ ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس بنیاد پر کسی زبان کے مختلف لفظوں کو تو اظہار کی غرض سے ایک دوسرے پر ترجیح دی جا سکتی ہے اور دینی چاہیے مگر ایک زبان ہی کو دوسری پر فائق قرار دے دینا اندھیر ہے۔
جاننا چاہیے کہ الفاظ آسمان سے نہیں اترتے۔ زمین پر بسنے والے آدم زاد انھیں جنم دیتے ہیں اور رواج میں لاتے ہیں۔ پھر مختلف قوموں اور تہذیبوں میں کسی رویے، شے یا مظہر کو جتنی اہمیت حاصل ہوتی ہے اتنی وسعت اور معنویت زبان میں اس سے متعلق الفاظ میں بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ مثلاً یورپ زیادہ تر ایک سرد علاقہ ہے۔ وہاں روایتی طور پر نہانے دھونے اور طہارت سے متعلق رویے ویسے نہیں رہے جیسے ایشیا کے گرم خطے کے باسیوں میں پائے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں پانی اکثر وافر اور اس کا استعمال اہلِ یورپ سے بہت زیادہ رہا ہے۔ لہٰذا لوٹا ہماری مقامی تہذیب کا ایک جزوِ لا ینفک بن کر سامنے آیا۔ لیکن اب اگر یورپی زبانوں میں لوٹے کا ہم معنیٰ کوئی لفظ نہ ملے تو اس پر تعجب کرنا بجائے خود تعجب کی بات ہو گی۔ ظاہر ہے کہ فرنگی بیچارے پالے کے مارے اس قسم کے تکلفات کی تاب ہی نہ لا سکتے تھے۔ لفظ کہاں سے لاتے؟
پس الفاظ کے مفاہیم، مطالب، معانی، دلالات، مضمرات وغیرہ میں فرق اور اختلاف ایک آفاقی حقیقت ہے۔ اسے کسی خاص زبان کے الفاظ سے مخصوص کر کے اس زبان کو دوسری پر فوقیت دینا انتہا کی کور ذوقی ہے یا مولویانہ درجے کی ابلہ فریبی۔ اردو میں انگریزی یا کسی اور زبان کے الفاظ کو اس خیال سے ٹھونسنا کہ اردو الفاظ وہ مزہ نہیں دیتے، ایسا ہی ہے جیسے کوئی چٹو لڈوؤں میں مرچیں ڈالنے کی کوشش کرے۔ میٹھے کی اپنی جگہ ہے اور چٹپٹے کی اپنی۔ اور یہ نکتہ سمجھانے کے لیے خود زبان کافی ہے۔