شعر فہمی کا اصلِ اصول میں اس قول کو سمجھتا ہوں جو میرزا عبدالقادر بیدلؔ سے منسوب چلا آتا ہے۔ فرمایا کہ شعرِ خوب معنیٰ ندارد۔ یعنی اچھے شعر کا مطلب نہیں ہوتا۔ اب اس بات کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ اول یہ کہ اچھا شعر سرے سے کوئی مطلب رکھتا ہی نہیں۔ دوم یہ کہ اس کے معانی کوئی ایسی خصوصیت یا ندرت نہیں رکھتے کہ توجہ کے مستحق ہوں۔ ہر دو صورت میں مراد یہ ہے کہ اچھی شاعری کا پیمانہ اچھے معانی نہیں۔
پتے کی بات یہ ہے کہ بیدلؔ نے یہ اصول قائم نہیں کیا بلکہ اسے محض ایک دلکش انداز میں بیان کر دیا ہے۔ شاعری کی نسبت یہ نقطۂ نظر ہمارے ہاں بہت پرانا چلا آتا ہے۔ میں اس پر اپنے کچھ مضامین میں زیادہ تفصیل سے بحث کر چکا ہوں۔ یہاں یہ کہنا کافی ہو گا کہ لفظ اور معنیٰ کی تقابلی حیثیت پر دنیا بھر میں دو بڑی رائیں پائی جاتی ہیں۔ کچھ لفظ کو اہمیت دیتے ہیں اور کچھ معنیٰ کو۔ ہمارے بزرگوں نے زیادہ تر لفظ کو اچھے کلام کا مدار قرار دیا ہے۔ بیدلؔ کے مقولے کا جوہر بھی یہی ہے کہ اچھا شعر معانی پر انحصار نہیں کرتا۔ ظاہر ہے کہ پھر الفاظ رہ جاتے ہیں سو انھی کو ہمارے اکابر نے ہمیشہ اہم گردانا ہے۔
اب یہ ہوا ہے کہ مغربی تنقید کے زیرِ اثر ہمارے لوگ شعر کے معانی پر غور کرنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ اچھا شاعر وہ ہے جو نئے خیالات پیش کرے۔ یہ اصول دو وجوہات سے ناقص ہے۔ اول یہ کہ شاعر کا ہنر زبان و بیان ہے نہ کہ فلسفہ و منطق۔ اس کا کام یہ نہیں کہ نئے نئے خیالات کا پیچھا کرتا رہے بلکہ یہ ہے کہ عام خیالات کو بھی اس قدرت اور طلاقت سے بیان کرے کہ کوئی اور نہ کر سکے۔ دوم یہ کہ نئے خیالات نئے نہیں ہوتے۔ انسان کے مسائل، محرومیاں، تمنائیں اور معاملات وہی ہیں جو ابتدائے آفرینش سے چلے آتے ہیں۔ وہ ہر زمانے میں کم و بیش ایک ہی جیسی آزمائشوں سے دوچار ہوتا ہے اور ایک ہی جیسے خیالات اس کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ جو خیالات اسے نئے معلوم ہوتے ہیں وہ محض اس وجہ سے ہیں کہ اس کے زمانے میں پہلے پیش نہیں کیے گئے۔ اس واسطے نہیں کہ کسی زمانے میں بھی پیش نہ کیے گئے تھے۔ ہم ماضی کو بھلا دیتے ہیں اور مستقبل میں پھر اسی کا عکس دیکھ کر اپنے تئیں نیا زمانہ تخلیق کرتے ہیں۔
حاصل یہ کہ اچھا شاعر عام باتوں کو خاص ڈھنگ سے بیان کرنے کے سبب اچھا کہلاتا ہے۔ نیز سخنِ تر کے لیے نکتہ سرائی نہیں بلکہ زبان و بیان کی غیر معمولی صلاحیت درکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غالبؔ کے پیچیدہ اور مغلق کلام پر ہماری روایت کے سخن فہم بزرگوں نے انگشت نمائی کی ہے اور اسے درخورِ اعتنا نہیں جانا۔ غالبؔ خود بھی آخری عمر میں اس بات کے قائل ہو گئے تھے کہ شاعری فلسفہ بگھارنے کی بجائے عام اور سادہ باتوں کو ایک آفاقی زبان میں بیان کرنے کا نام ہے۔ ان کا بعد کا کلام اس ادراک کا آئینہ دار ہے۔
اب آتے ہیں میرؔ کے اس شعر کی جانب جس کی نسبت ایک صاحب نے استفسار کیا ہے۔
کیا جانے وہ مائل ہووے کب ملنے کا تم سے میرؔ
قبلہ و کعبہ اس کی جانب اکثر آتے جاتے رہو
کہتے ہیں کہ محبوب کے مزاج کا پتا نہیں کہ کب ملاقات پر آمادہ ہو۔ بہتر ہے کہ میرؔ صاحب اس کی طرف آتے جاتے رہا کریں۔ یہ کل معانی ہیں اس شعر کے۔ مگر بیان پر غور کیا جائے تو اہتزاز کا ایک اور ہی عالم ہے۔ محبوب کی متلون مزاجی کا ذکر نہیں مگر صاف نظر آتا ہے کہ من موجی ہے۔ قبلہ و کعبہ پکار کر میرؔ کو جو مشورہ دیا گیا ہے وہ بجائے خود طنزِ لطیف کا ایک شاہکار ہے۔ پھر سلاست کا وہ عالم ہے کہ کچھ ادب فہم ہی سمجھتے ہیں۔ ایسے رواں اور ملائم مصرعے نکالنے کا جوکھم وہ جانے گا جس نے کبھی ایسی کوشش کر دیکھی ہو۔ پھر پورے شعر میں وہ بیتابی کہیں بیان نہیں کی گئی جو عاشق کو محبوب سے ملنے کے لیے ہوتی ہے مگر طرزِ ادا سے کیسی ٹپکی پڑتی ہے۔ یہ سب جادو الفاظ کے ہیں۔ معانی تو اس کے سوا کچھ نہ تھے جو ہم نے ایک جملے میں بیان کیے۔
اب یہی بات آپ خود اچھے سے اچھے الفاظ میں کہنے کی کوشش کر کے دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ میرؔ کو خدائے سخن کیوں کہتے ہیں۔