میری حافظ صاحب کی نسبت ابتدائی رائے یہ تھی کہ صاحبِ مطالعہ اور فہیم آدمی ہیں۔ جو باتیں محولہ مراسلے میں کی گئی ہیں ان سے متوقع نہیں تھیں۔
اول تو لفظ درست عربی الاصل نہیں۔ ہمارے علم کے مطابق ٹھیٹھ فارسی کلمہ ہے۔ دوم یہ کہ "گی” کے لاحقے کی نسبت حافظ صاحب غلط فہمی کا شکار ہیں کہ یہ صرف فارسی الاصل الفاظ کے ساتھ روا ہے۔ طرفگی، مشاطگی، مسخرگی، باقاعدگی، بد مزگی، بےحوصلگی، بد معاملگی، خوش سلیقگی وغیرہ اکثر عربی مادوں کے کلمات و تراکیب میں یہ لاحقہ فارسی اور اردو میں رائج ہے۔ اصول دراصل یہ ہے کہ ہائے مختفی یا بعض اوقات الف پر ختم ہونے والے اسمائے صفت کو اسمِ کیفیت میں بدلنے کے لیے آخری حرف کی جگہ "گی” ملحق کیا جاتا ہے۔ جیسے شگفتہ سے شگفتگی اور خفا سے خفگی۔
موصوف نے عوام کو بھی اس عبارت میں بتکرار اسمِ مونث کے طور پر برتا ہے۔ اگر وہ فی الواقع عوام کے کلام کو اس درجہ لائقِ اعتنا سمجھتے ہیں تو ہم کل کلاں ان کے مراسلوں میں چھابڑی والوں اور بازاریوں کے سے الفاظ کی توقع بھی کر سکتے ہیں۔ آخر وہ بھی جمہور ہیں۔ عوام ہیں۔ کالانعام سہی!
حافظ صاحب کا ایک اور تسامح یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ زبان کے حوالے استناد کے ضمن میں عوام کے مقابل علما کو سمجھتے ہیں۔ یہ بڑی بےبنیاد سی بات ہے۔ علما کے درجے کے لوگ اچھی زبان کے قواعد اور اصول ضرور طے کر سکتے ہیں مگر وہ سند بھی ہوں، یہ کچھ ایسا لازم نہیں۔ مثلاً ناسخؔ نے اردو کا محاورہ مصنوعی طور پر طے کرنے کی بڑی جانکاہ کوشش کی مگر داغؔ باقاعدہ عالم نہ سمجھے جانے کے باوجود سند کے معاملے میں ان سے اولیٰ ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ تمام اچھی چیزوں کی طرح زبان کا معیار بھی خواص ہی ہیں۔ عوام کی بولی ٹھولی سے سند لینے والے لوگ عوام ہی کی سطح پر آن رہتے ہیں۔ مزید برآن یہ زیادہ تر محض ایک فکری رویہ ہے۔ عملی طور پر اس کے مویدین بھی کم ہی چاہیں گے کہ مثلاً کسی سے کمبخت یا ظالم کہہ کر خطاب کرنے کی بجائے BC کہیں۔
لفظ و تلفظ میں عوام کی سند….درستی (درست + یائے نسبتی) اس لیے درست کہا جاتا ہے کہ درست عربی کا لفظ ہے چنانچہ اس کے…
Posted by Hafiz Safwan on Saturday, April 18, 2020