میرا بچپن کہانیاں پڑھتے گزرا۔ پھول، تعلیم و تربیت، نونہال، بچوں کی دنیا، بچوں کا باغ وغیرہ ان گنت رسالے تھے جن کی دیوانگی ہر وقت مجھ پر طاری رہتی تھی۔ بڑے اخبارات و جرائد میں بچوں کے ادب کے گوشے اور عمرو عیار اور ٹارزن وغیرہ کی کہانیاں الگ تھیں۔ عجیب اتفاق ہے کہ اس دور میں مجھے کہانیوں اور لطیفوں کے سوا کسی چیز سے شغف نہ تھا۔ شاعری، مضامین اور اقوالِ زریں وغیرہ سے خاص چڑ تھی۔ شعر فہمی کا یہ عالم تھا کہ غالباً ساتویں آٹھویں جماعت تک شعر اور لطیفے کا فرق معلوم نہ تھا۔ نظمیں دیکھ کر بدک جاتا تھا مگر لطیفے کو شعر اور شعر کو لطیفہ ہی کہتا اور سمجھتا تھا۔
پھر لڑکپن آیا۔ کچھ سانحات ایسے گزرے کہ دنیا ہی بدل گئی۔ زندگی کا نظام سب تلپٹ ہو گیا اور مزاج ایسا برہم ہوا کہ وہ بچپنا اب کسی اور کا معلوم ہوتا ہے۔ اب مدت سے یہ عالم ہے کہ طبیعت افسانوں، ناولوں، کہانیوں اور داستانوں کی طرف نہیں آتی۔ ناٹک پھر بھی کسی قدر پسند ہے اس لیے کبھی کبھار فلم دیکھ لیتا ہوں۔
کہانی انسان کے خمیر میں ہے۔ آدمی کے سیکھنے کا عمل دراصل کہانی کہنے کا عمل ہے۔ مختلف نئی نئی چیزوں کو باہم دگر جوڑ کر اور ان میں ربط پیدا کر کے ہمیں تسکین کا احساس ہوتا ہے۔ کہانی اسی طرح کہی جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں جو کچھ حاصل ہوتا ہے اسی کا نام علم ہے۔ لہٰذا جیتے جی اور ہوش میں رہتے ہوئے کوئی شخص کہانی سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ میں بھی نہیں ہو سکا۔
میں جب لوگوں کی کہی ہوئی کہانیوں سے اکتا گیا تو طبیعت ان داستانوں کی جانب مائل ہوئی جو خدا تعالیٰ سے منسوب ہیں۔ تورات، صحف الانبیا، انجیل اور قرآن میں مذکور قصے اور حکایات دل کے قریب ہونے لگیں۔ مدتوں پہلے ارسطو کی بوطیقا کو بڑے تعمق سے پڑھا تھا اور کہانی کے وہ اصول ذہن نشین کیے تھے جن پر مغرب کے شاہکار افسانوی ادب کا مدار ہے۔ اب دیکھتا ہوں تو ان اصولوں پر بھی الہامی ادب سے بڑھ کر کچھ نظر نہیں آتا اور یہ یقین پختہ تر ہوتا چلا جاتا ہے کہ کلام کی اصل خدا کا کلام ہی ہے اور انسانوں کے تمام تر کمالات اس کی آڑی ترچھی نقل سے زیادہ کچھ نہیں۔
مگر ٹھہریے۔ کلامِ الہٰی کے بعد اور انسان کی کہی ہوئی داستانوں سے پہلے ایک درجہ کہانیوں کا اور بھی ہے۔ یہ کہانیاں وہ ہیں کہ نہ انسانوں نے کہی ہیں نہ خدا نے۔ لیکن دونوں کا ان کی تشکیل میں حصہ بھی ہے۔ میری مراد الفاظ سے ہے۔ ہر لفظ کے پیچھے ایک داستان چھپی ہوئی ہے جو کسی طور پر دنیا کی بہترین کہانیوں سے کم تر نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر خاص و عام، عالم و جاہل، امیر و غریب روزانہ ان گنت الفاظ سے کام لیتا ہے اور ایک خاص طریقے پر ان کا استعمال کرتا ہے تاکہ بات سمجھ اور سمجھا سکے۔ یعنی چارپائی سے چارپایہ مراد نہیں لیتا اور چارپائے کا لفظ چارپائی کی جگہ کام میں نہیں لاتا۔ یہ استعمال کس قدر عام اور عمومی ہے اور بچہ بچہ اس کے اصولوں سے واقف ہے۔ مگر غور کی نگاہ سے دیکھیے تو معلوم ہو گا کہ کہانی یہیں چھپی ہوئی ہے۔ سمجھنے والوں کے لیے یہیں سے وہ راہ کھلتی ہے جس پر سفر کر کے وہ نئی نئی دنیائیں دریافت کرتے ہیں، طرح طرح کی داستانوں اور واقعات سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور بالآخر نتیجے کی منزل پر پہنچ کر فیصلہ کرتے ہیں کہ فلاں لفظ فلاں خاص معانی ہی میں کیونکر مروج ہوا۔
تورات میں مذکور ہے کہ تمام انسانوں کی بولی اول اول ایک ہی تھی۔ پھر جب انھوں نے بابل میں مینار بنا کر آسمان پر چڑھنے کی کوشش کی تو خدا نے ان کی زبان میں پھوٹ ڈال دی۔ وہ الگ الگ بھاشائیں بولنے لگے اور ایک دوسرے کی بات سمجھنے سے معذور ہو گئے۔ عقل والوں کے لیے اس حکایت میں بڑی نشانیاں ہیں۔ تفصیلات کا موقع نہیں مگر ذرا لفظ بابل کو دیکھتے چلیے۔ یہ باب اور ایل کا مرکب ہے۔ باب کے معانی دروازے کے ہیں اور یہ عبرانی اور عربی میں انھی معنوں میں مستعمل ہے۔ ایل کا لفظ ذاتِ باری تعالیٰ کے لیے ہے۔ اسماعیل، جبرائیل، اسرائیل، دانیال وغیرہ میں آخر میں یہی آیا ہے۔ تو باب ایل کا مطلب ہوا خدا کا دروازہ۔ یعنی بابل شہر کے نام ہی میں وہ کہانی چھپی ہے جو تورات میں بیان ہوئی ہے۔
غالبؔ کا شعر ہے:
بیاورید گر اینجا بود زباندانے
غریبِ شہر سخن ہائے گفتنی دارداگر یہاں کوئی زبان سمجھنے والا ہے تو اسے لاؤ۔ شہر کے اجنبی کے پاس کہنے والی بہت باتیں ہیں۔
میں نہیں کہتا کہ میرے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے۔ لفظوں کی کہانیاں بے شمار ہیں اور انسان کا علم اور بضاعت بہت محدود۔ میں یوں بھی نہایت کم مطالعہ اور کم کوش آدمی ہوں۔ مگر اتنا کہنے دیجیے کہ کچھ کہانیاں میرے پاس ایسی کہنے کو ہیں جو کم از کم ہمارے زمانے اور ہماری زبان میں کہی سنی، لکھی پڑھی نہیں گئیں۔ ایک عرصے سے خواہش ہے کہ اردو گاہ اور لہجہ کے وسیلے سے یہ باتیں آپ کی خدمت میں پیش کر سکوں۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ اس محنت کی تحریک اور فرصت میں بہت زیادہ نہیں پاتا۔ کبھی وسائل اور معاش کی مجبوریاں آڑے آتی ہیں تو کبھی تکنیکی الجھنیں سدِ راہ ہو جاتی ہیں۔ مجھے آپ کی خیر خواہی کی ضرورت ہے۔ دعاؤں میں یاد رکھیے اور زبان و ادب کی دلکش اور آفاقی اقدار کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پھیلائیے۔ اس سے نہ صرف معاشرے کو فائدہ پہنچے گا بلکہ مجھے بھی ان رکاوٹوں کو عبور کرنے میں مدد ملے گی جو کرنے کے کام کرنے نہیں دیتیں۔ ان شاء اللہ!