اسے اتفاق کہہ لیجیے۔ مگر ایسے حسین اتفاقات ہوتے ہیں تبھی روایات جنم لیتی ہیں۔
آج دوپہر کا وقت تھا۔ کڑکتی دھوپ اور جھلسا دینے والی گرمی میں شاید صرف آدم کے مجبور بیٹے ہی گلیوں بازاروں چل پھر رہے ہوں گے ورنہ خدا کی کوئی اور مخلوق زمین پر نظر آتی تھی نہ آسمان پر۔ میں گھر کے برآمدے میں بیٹھا کچھ پڑھ رہا تھا کہ کائیں کائیں کی آواز سنائی دی۔ نظر اٹھا کر دیکھا تو ایک کوا باورچی خانے کی منڈیر پر بول رہا تھا۔
میں دوبارہ مگن ہو گیا۔ کوے نے شور مچایا۔ میں نے پھر نگاہ کی۔ وہ اتر کر برآمدے کے قریب پڑے ہوئے گندم کے بھڑولے پر آ بیٹھا۔ کائیں کائیں کائیں۔
ماں جی باورچی خانے میں تھیں۔ انھوں نے روٹی کے چند ٹکڑے لا کر پھینکے۔ کوا صحن میں اتر آیا۔ مگر ٹکڑے اٹھانے کی بجائے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ میں اور ماں جی حیرت سے اسے دیکھنے لگے۔ پھر وہ دوبارہ منڈیر پر پہنچ گیا۔ اس کے بعد گھر کے عین دروازے پر بیٹھ کر طوفان برپا کر دیا۔
ماں جی نے کہا، خیر کی خبر ہو۔ اور دعا کرنے لگیں۔ میں پوری طرح کوے کی طرف متوجہ ہو گیا۔ مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ نہ بھوکا ہے نہ پیاسا۔ صرف توجہ کا طالب ہے۔ میں اسے دیکھتا رہا اور سوچتا رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ اڑ گیا اور آسمان ویسے ہی خالی اور سنسان نظر آنے لگا جیسے اس کے نمودار ہونے سے پہلے تھا۔
مجھے ٹھیک طرح اندازہ نہیں مگر شاید اس بات کو دو گھنٹے بھی نہ ہوئے ہوں گے کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ ابو اور امی کے چچا زاد بھائی فیصل آباد سے تشریف لائے۔ پرانے وقتوں کے بزرگ ہیں۔ پرانی روایت کے ساتھ آئے ہیں۔ آج رات ہمارے پاس ٹھہریں گے۔