ٹوئٹر نے یاد دلایا کہ اردو نگار کو سماجی واسطوں کی دنیا میں دو سال پورے ہو گئے۔
گو کہ بلاگ کسی نہ کسی رنگ میں کم و بیش پون دہائی سے چلا آتا ہے مگر اردو نگار کے نام سے ایک ذاتی، ادبی آن لائن بیاض کی باقاعدہ اشاعت اور ٹوئٹر اور فیس بک وغیرہ پر رونمائی کو آج تیسرا سال شروع ہو گیا ہے۔ مجھے خود پر تعجب ہوتا ہے اور رشک آتا ہے کہ میں دو سال ایک کام بلاتعطل کیونکر کرتا رہا۔ کچھ فطری اور کچھ فطرتی تقاضوں کے سوا ایسا استقلال میں نے زندگی میں پہلے کبھی بھی ظاہر نہیں کیا۔ شاید یہ بھی بڑھاپے کی ایک علامت ہو۔ یا ممکن ہے آثارِ قیامت وغیرہ سے تعلق رکھنے والی کوئی چیز ہو۔ آپ جانیں!
ایک بات البتہ میں بخوبی جانتا ہوں کہ نگارشات کا یہ سلسلہ ہرگز جاری نہ رہ سکتا اگر بہت سے لوگ بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر میری مدد اور حوصلہ افزائی نہ کرتے رہتے۔ ان میں سے بہت سے ایسے ہیں کہ ان کے وجود اور محبت کا مجھے احساس ہے مگر میں خود بھی ان کا صورت آشنا نہیں۔ بعض وہ ہیں کہ جن کے اسمائے گرامی
زباں پہ بارِ خدایا یہ کس کا نام آیا
کے مصداق اجازت نامے اور عبوری ضمانت وغیرہ کے بغیر نہیں لیے جا سکتے۔ کچھ کے ذکر کے آڑے ان کی پردہ نشینیاں آتی ہیں۔ لے دے کے محمد ریحان قریشی، سردار فرحان محمد خان، نوید احمد، کلیم اللہ، حمیرا عدنان اور زبیدہ شیخ رہ جاتے ہیں جن کا شکریہ بالجہر ادا کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا، شکریہ!
مجھے نہیں علم کہ فردِ واحد کی ادبی کاوشوں پر مشتمل کوئی بلاگ اس قسم کے تواتر کے ساتھ دو سال متحرک رہ سکا ہو۔ اگر یہ لاعلمی کسی طرح امرِ واقعہ پر دلالت کرتی ہے تو میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے۔ بنوں کے کرائے سے بھی کم خرچ میں اردو نگار نے چار ہزار کے قریب مداحوں اور قارئین کا سنگِ میل طے کر لیا ہے۔ الحمدللہ!
یاد آیا۔ بنوں کی تلمیح شاید آپ اپنے زورِ بازو سے معلوم نہ کر سکیں۔ لہٰذا یہ بھی سنتے جائیے۔ کہتے ہیں کہ ایک سادہ لوح پٹھان حج کو گیا۔ بیت اللہ پہنچ کر دیر تک گڑگڑاتا رہا۔ بےقراری حد سے بڑھی تو کہنے لگا، "اللہ! ام بہت دور سے آیا ہے۔ بنوں دیکھا ہوا ہے؟”