ایک کام کے سلسلے میں نئی پرانی تنقیدی کتب اور ادبی رسائل کھنگالنے کا اتفاق ہوا۔ تقریباً ہر کتاب میں کم از کم ایک مضمون ایسا نکلا جس میں کسی شاعر کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا کر اسے عہد کی توانا ترین آواز، جدت کا پیمبر اور ادب کا روشن ستارہ وغیرہ قرار دیا گیا تھا۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ان لوگوں کے کلام تو کیا، نام سے بھی آج کوئی واقف نہیں۔
آپ کو یقین نہ آئے تو کسی کتب خانے میں چلے جائیے۔ انٹرنیٹ پر پرانی کتابیں دیکھ لیجیے۔ بڑے بڑے طرم خان ملیں گے جن کی عظمت کے ڈنکے پیٹ دینے میں ناقدوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ آفاقیت ان پر ختم تھی۔ انفرادیت کے وہ باپ تھے۔ جدت ان کے گھر کی لونڈی تھی۔ سب کچھ وہی تھا جو آج بھی بہت سے شاعروں اور ادیبوں کا خاصہ ہے۔ مگر آپ کو حیرت ہو گی تو بس اس بات پر کہ ان زعما و عظما کا نام آپ نے پہلی بار پڑھا ہے۔
قبرستان زندگی کی ہما ہمی میں الجھے ہوئے انسانوں کے لیے عبرت کی جگہ ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ نقادوں کی کتابیں اور دانشوروں کے مقالات بھی ادب و فن کے لوگوں کے لیے عبرت کا مقام ہیں۔ کتنے ہی شاعر، ادیب، افسانہ نگار بوسیدہ اوراق کے ان بےچراغ مزاروں میں دفن ہیں۔ انھیں باور کروا دیا گیا تھا کہ وہ بہت اہم ہیں۔ ان کے بغیر ادب کی تاریخ نامکمل رہے گی۔ وہ تخلیق کاروں کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ مگر باور کرنے والے بھی گئے اور کروانے والے بھی۔ آج دونوں کا نام لیوا کوئی نہیں۔
ادیب لفظوں سے کھیلتے ہوں گے۔ نقاد ادیبوں سے کھیلتے ہیں۔