غریب کا لفظ عربی سے آیا ہے۔ اس کا مادہ چلنے اور چلے جانے سے متعلق ہے۔ مغرب کا لفظ اسی سے ہے۔ مراد ہے وہ جگہ جہاں سورج چلا جاتا ہے۔ غریب دور جانے والے کو کہتے ہیں۔ یعنی مسافر۔ اسی سے اس میں اجنبیت کا مفہوم داخل ہوا کیونکہ مسافر مقامی لوگوں کے لیے اجنبی ہوتا ہے۔ غالبؔ کا ایک خوبصورت شعر دیکھیے:
بیاورید گر ایں جا بود زباں دانے
غریبِ شہر سخن ہائے گفتنی دارد
کہتے ہیں کہ یہاں کوئی زبان جاننے والا ہے تو اسے لاؤ۔ شہر کے اجنبی کے پاس بہت سی کہنے والی باتیں ہیں۔
اقبالؔ ایک جگہ کہتے ہیں:
تو عرب ہو یا عجم ہو ترا لا الٰہ الّا
لغتِ غریب جب تک ترا دل نہ دے گواہی
یعنی تو عرب ہے یا غیر عرب، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر تیرا دل گواہی نہ دے تو تیرا کلمہ محض ایک اجنبی یا عجیب زبان ہے۔
غریب کے معانی عجیب کے بھی ہیں۔ عجیب و غریب کی ترکیب ہمارے ہاں عام استعمال ہوتی ہے۔ غرابت عجیب اور نامانوس ہونے کو کہتے ہیں۔ زبان و بیان کی اصطلاح میں اس سے مراد ہے ایسے الفاظ استعمال کرنا جن سے لوگ واقف نہ ہوں۔
کوے کو عربی میں غُراب کہتے ہیں کیونکہ دور دور تک چلا جاتا ہے۔ توریت کے مطابق طوفانِ نوحؑ کے بعد پہلا جانور جسے کشتی سے باہر بھیجا گیا، کوا تھا۔ وہ تب تک ادھر ادھر پھرتا رہا جب تک پانی سوکھ نہ گیا۔ یہ لفظ قرآنِ مجید میں بھی ہابیل و قابیل کے ذکر (المائدہ – 31) میں آیا ہے۔
پس غریب کا اصل مطلب مسافر یا راہرو ہے۔ مسافر کے اجنبی ہونے کی وجہ سے اس سے مراد وہ شخص یا شے لینے لگے جو لوگوں کو نامانوس اور عجیب لگے۔ پھررفتہ رفتہ اس میں افلاس اور تنگ دستی کا مفہوم بھی شامل ہو گیا کیونکہ مسافر عموماً دوسروں کا محتاج ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں پر اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم ہے (البقرہ – 215) ان میں مسافر بھی شامل ہیں۔
یہی حال امیر کا ہے۔ امر عربی لفظ ہے اور اس کے مفہوم میں اشارہ، مشورہ اور رہنمائی شامل ہیں۔ موتمر الاسلامی آپ نے سنا ہو گا۔ مراد ہے مسلمانوں کی مشورہ گاہ یا کانفرنس۔
رہنمائی سے اس کے معانی فیصلے اور حکم کی جانب منتقل ہوئے۔ اب زیادہ تر حکم ہی کے معانی میں آتا ہے۔ آمر اور آمریت کے الفاظ ہمارے ہاں عام ہیں۔ آمر حکم چلانے والے کو کہتے ہیں۔ آمریت سے مراد ہے وہ نظامِ حکومت جس میں فردِ واحد کا حکم چلے اور کسی کو اختلاف کی اجازت نہ ہو۔
قرآنِ مجید میں آیا ہے:
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اَطِيْعُوا اللّـٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِى الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۖ
(النساء – 59)
اے ایمان والو! اللہ کی فرمانبرداری کرو اور رسول کی فرمانبرداری کرو اور ان لوگوں کی جو تم میں سے حاکم ہوں۔
اولی الامر اسے کہتے ہیں جسے حکم دینے کا اختیار ہو۔
جنوبی پنجاب میں جب لوگ کسی کی وفات پر جاتے ہیں تو پرسہ دیتے ہوئے کہتے ہیں، "امر الہٰی!” یعنی اللہ کا حکم۔ لواحقین کی جانب سے جواب دیا جاتا ہے، "منیا۔” یعنی مانا۔ تسلیم کیا۔
امارت کا مطلب سلطنت یا ریاست ہوتا ہے۔ یعنی وہ جگہ جہاں کسی حکمران کا حکم چلتا ہو۔ متحدہ عرب امارات ان سات ریاستوں پر مشتمل ملک ہے جنھوں نے ایک دوسری سے اتحاد کر رکھا ہے۔
پس امیر بنیادی طور پر وہ شخص ہے جو حاکم یا صاحبِ اختیار ہو۔ چونکہ اختیار دنیا میں عام طور پر مال و دولت کی کثرت سے مشروط ہے اس لیے اس میں فراوانی کا مفہوم بھی داخل ہو گیا۔ اب یہ صورت ہے کہ اردو میں اس سے مراد وہ شخص لیا جاتا ہے جس کے پاس روپیہ پیسہ وافر ہو خواہ وہ حاکم ہو یا نہ ہو۔