ایک قرآنسٹ دوست کی خدمت میں
انسان کا سب سے بڑا دھوکا یہی اختیار ہے شاید۔ غرور کے لفظی معانی دھوکے ہی کے ہیں۔ ہم اس فریب سے باہر آنا ہی نہیں چاہتے کہ ہم کوئی شے ہیں۔ ورنہ یہ جو انسان کی چاہت اور ارادہ و اقتضا کا ذکر آپ نے فرمایا ہے اسے ایک قدم اور پیچھے جا کر دیکھنے سے سب قلعی کھل جاتی ہے۔
وَمَا تَشَآءُوْنَ اِلَّآ اَنْ يَّشَآءَ اللّـٰهُ رَبُّ الْعَالَمِيْنَ (سورۃ التکویر – ۲۹)
اور نہیں چاہتے تم مگر یہ کہ چاہے اللہ پروردگار دو جہانوں کا۔
انسان کے ہر اچھے برے عمل کی بنیاد سوچ یا خواہش پر استوار ہوتی ہے۔ عربی زبان کا لفظ "شاء” خیال سے آرزو تک کی ان تمام کیفیات کا احاطہ کرتا ہے جو انسان میں کسی عمل کی تحریک کرتی ہیں۔ چاہت اس لحاظ سے اس کا بہترین اردو ترجمہ ہے۔ اب نکتہ یہ ہے کہ آپ میں کسی عمل کی چاہت پیدا ہوئی۔ آپ نے وہ کر لیا تو اپنے تئیں مختار سمجھے۔ نہ کر سکے تو مجبور خیال کیا۔ تاہم یہ نکتہ الا ماشاء اللہ آپ کے وہم و گمان میں بھی نہ آیا کہ وہ چاہت کہاں سے پیدا ہوئی تھی؟ کیا آپ نے اپنے ذہن میں کسی اختیار کے تحت اسے بیدار کیا تھا؟ کیا آپ چاہتے تو وہ آپ میں پیدا نہ ہوتی؟ کیا آپ چاہیں تو اپنی سوچ کا دروازہ بند کر سکتے ہیں؟ کیا آپ اپنی آرزوؤں اور تمناؤں کو اپنی مرضی سے تخلیق کرتے ہیں؟ نہیں۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ہر چاہت ٹرک کی ایک بتی ہے جس کی پیچھے انسان بگٹٹ بھاگتا ہے۔ بتی کہیں اور سے دکھائی جاتی ہے۔ انسان اس پر بھی قادر نہیں کہ اسے نہ دیکھے۔ اس پر بھی نہیں کہ اس کی اتباع نہ کرے۔ دل ہم سے پوچھے بغیر مسلسل وہ جذبات پیدا کرتا ہے جو ہمارا کردار تشکیل دیتے ہیں۔ ذہن ہماری اجازت لیے بغیر ان سوالات و جوابات کے تانے بانے بنتا ہے جنھیں ہم اپنے افکار کہتے ہیں۔ یہ سب کہاں سے ہوتا ہے، کسی کو نہیں معلوم۔ مگر ہماری خود فریبی نہیں جاتی۔ آرزو پوری نہ کرنے والے سے گلہ کرتے ہیں، آرزو پیدا کرنے والے سے سوال نہیں کرتے۔ کتنی اذیت ہے یوں ننگ دھڑنگ ان آرزوؤں اور سوچوں کے پیچھے بھاگنا جو آپ کے دل و دماغ میں کہیں اور سے انڈیلی جا رہی ہوں۔ مگر انسان گھاٹے میں بھی تو ہے۔ ورنہ قادرِ مطلق نے کہہ ہی نہیں دکھا بھی رکھا ہے کہ تم چاہ تک نہیں سکتے مگر یہ کہ چاہے اللہ صاحب دو جہانوں کا۔