نفسیات کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ تکلیف وہی پہنچاتا ہے جو تکلیف اٹھاتا ہے۔ شیر کے پیٹ میں چوہے نہ دوڑیں تو ہرنیاں اس کے گرد چوکڑیاں بھرتی رہتی ہیں۔ شاید یہ دونوں کے لیے حیوانوں کی سطح سے اوپر اٹھ کر زندگی کے حسن کو محبت کی آنکھ سے دیکھنے کا وقت ہوتا ہے۔
انسان اگر اپنی نسبت زیادہ خوش فہمیوں کا شکار نہ ہو تو یہ باور کرنا مشکل نہیں کہ وہ بھی محض ایک جانور ہے۔ خدا نہیں۔ فرشتہ نہیں۔ دیوتا نہیں۔ زخم کھاتا ہے تو زخم لگائے بغیر رہ نہیں سکتا۔ ہم اپنے اردگرد پارے کی طرح تڑپتے اور مچلتے ہوئے انسان دیکھتے ہیں۔ پھر کیا عجب ہے کہ ان کی طرف بڑھنے والے ہاتھوں پر چھالے نکل آئیں؟
میں اپنی ماں جی کی دعاؤں سے نہایت متاثر ہوں۔ دیکھتا ہوں کہ کوئی بچہ انھیں بہت تنگ کرے تو کہتی ہیں، "اللہ تینوں سکون دیوے۔” یعنی اپنا سکون طلب نہیں کرتیں۔ اس بچے کی نسبت چاہتی ہیں کہ چین پا جائے۔ ناخواندہ ہیں۔ مگر شعور کی کسی بالاتر سطح پر علم رکھتی ہیں کہ جسے خود چین نہ ہو اس سے کسی اور کا چین پانا مشکل ہے۔
دنیا میں اگر بےسکونی ہے تو دنیا والوں کی وجہ سے ہے۔ عقل، علم، رنگ، نسل، مذہب، ترقی، کسی شے سے اس کا کچھ لینا دینا نہیں۔ عالم ہو یا جاہل، مومن ہو یا ملحد، کالا ہو یا گورا، جو سکون سے محروم ہے وہی دوسروں کو بھی محروم کرنا چاہتا ہے۔ مگر نہ لوٹنے والا جانتا ہے نہ لٹنے والا۔ جانتا ہے تو صرف وہ کہ جس کے دل کو خدا نے قرار بخشا ہے اور وہ ایک طرف یبٹھ کر تماشا دیکھ رہا ہے۔ بھوکے شیروں اور ہراساں ہرنیوں کا تماشا!