بچپن میں سنا کرتے تھے کہ بعض لوگ اپنی ادب پروری اور علم دوستی وغیرہ کا رعب جھاڑنے کے لیے گھروں میں کتابوں کی الماریاں لگوا لیتے ہیں۔ گو کہ اکا دکا مثالیں اب بھی ہم جیسی مل جائیں گی مگر سادہ لوحی کے وہ زمانے لد گئے۔ اب لوگ کتابوں اور مصنفوں کے نام یاد کرتے ہیں اور گھر سے باہر بھی دما دم دوسروں کے منہ پر داغتے ہیں۔ چونکہ ہم بھی سوئے اتفاق اسی زمانے میں جوان ہوئے ہیں تو یہ علت کچھ عرصہ ہمیں بھی رہی۔ پھر اللہ بخشے مجذوبِ فرنگی حکیم نطشہ کے بارے میں معلوم ہوا کہ اسے اپنی کتابوں میں کسی کا حوالہ دینے سے خدا واسطے کا بیر تھا۔ اندھا کیا چاہے؟ دو آنکھیں! اپنے جہلِ مرکب کو نظریے میں ملفوف کرنے کی اس سے بہتر راہ کیا ہو سکتی ہے؟ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے، ہم نے شاید ہی کبھی کسی کتاب یا مصنف کا نام لیا ہو۔ موشگاف قسم کے لوگ کسی واہی تباہی کی سند مانگ ہی بیٹھیں تو فوراً نطشہ مغفور کا فوق البشر آگے کر دیتے ہیں۔
تاہم بعض خوش گمانوں کی بیماری کچھ مزمن قسم کی واقع ہوئی ہے۔ ہم نے ہمیشہ ڈنکے کی چوٹ پر کہا ہے کہ ہم پڑھنے کے شائق نہیں۔ لکھنے کے البتہ ہیں۔ لیکن ڈنکے سے زیادہ بھاری چوٹ غالباً کچھ لوگوں کو ہماری فصاحت و بلاغت سے پہنچتی ہے اور وہ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ یہ بیان انکسار وغیرہ کی قبیل سے ہے۔ حالانکہ انکسار سے ہمارا محض اس قدر رشتہ ہے کہ ہم نے تکبر تب چھوڑا جب ہر کس و ناکس نے کرنا شروع کر دیا۔ لوگ بہرحال نہیں مانتے۔ اب جب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک اجماع کی سی کیفیت دوستوں میں ہمارے تبحرِ علمی کی نسبت پیدا ہونے لگی ہے تو کیا بتائیں کتنا خوف آتا ہے۔ دیکھیے، ہم بےعزت ہونے سے بہت ڈرتے ہیں۔ اور وہ رسوائی تو خدا دشمن پر بھی نہ لائے جو ایسے نادان دوستوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔
پرانی بات ہے۔ ایک فوتیدگی پر جانا ہوا تو احباب نے کچھ لوگوں سے تعارف کروایا۔ شرمندگی تو ہمیں کچھ کچھ ہوئی مگر خیریت سے واپس آ گئے۔ اتفاق دیکھیے کہ دوسرے ہی دن کسی وجہ سے پھر اسی گھر جانا پڑا۔ بیٹھے ہی تھے کہ ایک نوجوان نے قصہ چھیڑ دیا کہ کل یہاں کوئی صاحب پرسہ دینے تشریف لائے تھے جو سات زبانوں کے عالم تھے۔ ہمیں بھی اشتیاق ہوا۔ گفتگو تھوڑا آگے بڑھی تو ہمارے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ معلوم ہوا کہ کل جو دوست نے دو تین زبانوں پر دسترس کا بہتان گھڑا تھا وہ چوبیس گھنٹوں میں امیر خسروؔ سے بھی آگے نکل گیا ہے۔ اب دسترس تو ہمیں پنجابی پر بھی اتنی نہ تھی کہ اس فتنے کی سرکوبی کرتے۔ لہٰذا فوراً گھر تشریف لے آئے۔ قیاس کہتا ہے کہ مرحوم کے مزار پر اب تک پندرہ بیس زبانوں میں ہمارے لکھے ہوئے کتبے لگ چکے ہوں گے!
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
حالیہ واقعہ بھی سن لیجیے۔ ایک دوست ہیں۔ کتابیں چاٹنے کے بےانتہا شوقین۔ یعنی یہ درجہ ہے کہ ہماری ایک کتاب پر گفتگو ہو رہی تھی تو کہنے لگے کہ اس کا پہلا جملہ ہی مجھے بھا گیا۔ اب ہمارے فرشتوں کو بھی خبر نہیں کہ ہماری کتاب کا پہلا جملہ کیا تھا۔ مگر موصوف نے یاد کر کے بتایا اور بالکل ٹھیک بتایا۔ ہم ابھی حیران ہی ہو رہے تھے کہ انھوں نے کسی اور کتاب کا ذکر چھیڑ دیا۔ ہم نے کہا کہ ہم نے نہیں پڑھی۔ بھونچکے ہو کر کہنے لگے، "گڈ ریڈز (Goodreads) پر تو تم نے اسے اپنی پسندیدہ کتاب قرار دیا ہے۔”
ہم نے کہا، "ہمیں تو دیپیکا پاڈوکون بھی بہت پسند ہے۔ اب کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ ہماری منکوحہ ہے؟”