بچپن کی یہ روش میں کبھی نہیں بھول سکتا کہ ہم بہن بھائی اپنے ساتھ کھیلنے والے بچوں کی عادات ہی نہیں، لب و لہجہ بھی اپنا لیا کرتے تھے۔ ابو جان کو ڈانٹ ڈپٹ کر ہمیں واپس راہ پر لانا پڑتا تھا۔ باقی بہن بھائی تو کچھ نہ کچھ بڑے ہو گئے۔ میں شاید وہی بچہ رہ گیا۔ آج بھی کسی شخص کو بولتے سنتا ہوں تو اپنے اندر اتار لیتا ہوں۔ فرق صرف اتنا پڑا ہے کہ پہلے اچھا برا سب طبیعت پر اثر انداز ہوتا تھا۔ اب صرف اسی چیز کا رنگ چڑھتا ہے جو اچھی لگے۔ اور اچھی لگنے والی چیزوں سے دنیا بھری پڑی ہے۔ حسن ہی حسن ہے۔ دیکھنے والی آنکھیں اور سننے والے کان ہوں تو جنت پر ایمان دنیا کو دیکھ کر بھی لایا جا سکتا ہے۔
میرے لب و لہجہ پر سب سے بڑا اثر میرے باپ کا ہے۔ وہ بہت شائستہ اور خوش کلام آدمی تھے۔ کم گو تھے۔ شعر و ادب سے قطعاً شغف نہ تھا۔ مگر خدا نے متانت اور وقار خمیر میں ڈال دیے تھے۔ کبھی کوئی شعر اتفاقاً ان کی زبان پر آ گیا تو گویا زندہ ہو گیا۔ کیفیات کے وہ وہ جہان مرحوم آباد کر گئے ہیں کہ سننے والے بھی مر کر ہی فراموش کر سکیں گے۔
ابو جان کے آخری دنوں میں جب وہ صاحبِ فراش تھے، پی ٹی وی پر ضیا محی الدین صاحب کا کوئی پروگرام نشر کیا گیا۔ انھوں نے بہت پسند کیا۔ گو کہ چند جگہوں پر انھیں کچھ اعتراضات بھی تھے مگر انھوں نے مجھ سے کہا کہ اس شخص کا پروگرام دیکھا کرو۔ پھر ان کی وفات تک چند ماہ ہم دونوں باپ بیٹا مل کر ضیا صاحب کو سنتے رہے۔
میرے اس مردِ قلندر ہمہ اوصاف یگانہ باپ نے مجھے ضیا محی الدین سے سیکھنے کا مشورہ کیوں دیا تھا؟ میرے نزدیک اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی عقلی اور دوسری ایمانی۔ عقلی یہ ہے کہ ابو جان کو میرا لب و لہجہ اور آواز سخت ناپسند تھی۔ فرماتے تھے کہ تمھاری باتیں کانوں کو چیر دیتی ہیں۔ تمھیں نہ اردو بولنی آتی ہے، نہ پنجابی، نہ انگریزی۔ ہر زبان کا کچرا زبان پر ہے۔ اور یہ حق تھا۔
دوسری اور ایمانی وجہ یہ ہے کہ انھیں احساس تھا کہ وہ رخصت ہونے والے ہیں۔ اداکار نہیں کہ ان کے مکالمے باقی رہ جائیں۔ صدا کار نہیں کہ آواز محفوظ کر لی جائے۔ ادیب نہیں کہ لفظ چھوڑ جائیں۔ لہٰذا انھوں نے مجھے ضیا محی الدین صاحب کا پتا دیا اور پھر اپنی راہ لی۔
میں نے ضیا محی الدین صاحب کو سنا۔ اتنا سنا، اتنا سنا کہ ٹھیک دو برس کے بعد میں ریڈیو پر تھا:
میڈیم ویو ایک ہزار پینتیس کلو ہرٹس پر ہم ریڈیو پاکستان ملتان سے بول رہے ہیں۔ میں ہوں آپ کا میزبان راحیلؔ فاروق اور ساتھی انجینئر ہیں۔۔۔
پھر ایک دن پی ٹی وی والوں نے کہا کہ ہمیں دوسرا ضیا محی الدین مل گیا ہے۔ یہ وہی میں تھا جسے ابو جان کے بقول بات کرنی نہیں آتی تھی۔ اور مجھے واقعی نہیں آتی تھی۔ بیٹے کی نسبت باپ سے زیادہ سچا کون ہو سکتا ہے؟
ابو جان ڈانٹ ڈپٹ نہ کرتے، افسوس نہ کرتے، توجہ نہ دلاتے تو میں شاید آج بھی وہی ہوتا جو میرے خاندان اور اردگرد کے لوگ ہیں۔
مگر ضیا صاحب منزل نہیں تھے۔ ویسے ہی جیسے ریڈیو نہیں تھا۔ ریڈیو پر مہینہ بھر کے بعد ہی میں اکتا گیا تھا۔ بوتھ ساتھی اناؤنسرز کے حوالے کر کے نکل جاتا اور لان میں بیٹھ کر سگریٹ پیتا رہتا۔ سال بھر کے بعد یہ ناتا بھی نہ رہا۔ ضیا صاحب سے رشتہ بھی ایسا ہی ہے۔ اب کہیں ان کی وڈیو یا آڈیو سامنے پاتا ہوں تو کنی کترا کے نکل جاتا ہوں۔
ضیا صاحب کی تنقیص حاشا و کلا مراد نہیں۔ میری اوقات ہی کیا ہے کہ ان کے رتبے پر بات کروں؟ میں تو ان کا ریزہ خوار ہوں۔ نقال ہوں۔ منت کش ہوں۔ وہ میرے روحانی استاد ہیں۔ کبھی ان سے نہیں ملا۔ مگر لفظ کے تیور اپنے باپ سے بھی زیادہ ان سے سیکھے۔ ان کے احسانات کا منکر ہونا اپنی کم ظرفی کی دلیل ہو گا۔ مدعا صرف اس قدر ہے کہ وہ ایک پائے کے اداکار ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ، مہذب اور جہاں گرد آدمی ہیں۔ میں نے یونیورسٹی کا منہ نہیں دیکھا۔ طبعاً اور مزاجاً جاٹ ہوں۔ اداکاری اور ذرائعِ ابلاغ سے جس قدر ناتا رہا، انھی کے زیرِ اثر رہا اور بہت جلد ختم ہو گیا۔ مجبوری نہ ہو تو گھر سے قدم باہر نکال کر بھی میں راضی نہیں۔ میرا ان کا کیا موازنہ ہو سکتا ہے؟
لوگ قرأت کے فن کو ضیا محی الدین صاحب کی وجہ سے جانتے ہیں۔ وہ تحت اللفظ کا جیتا جاگتا معیار ہیں۔ اللہ انھیں سلامت رکھے۔ مگر عرضِ مکرر ہے کہ وہ اداکار ہیں۔ انھوں نے عالمی سطح کے اداروں سے تربیت پائی ہے اور عالمی سطح ہی پر اپنے فن کے جوہر دکھائے ہیں۔ میں اداکار نہیں۔ بلکہ گستاخی پر محمول نہ کیا جائے تو کہوں کہ مجھے اس فن سے ایک قسم کی نفرت ہے۔ اپنی سب سے بری ریکارڈنگز وہ لگتی ہیں جن میں بن کر بولنے کا احساس ہوتا ہے۔ اور یہ احساس بھی کمبخت بہت جگہ ہوتا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ مجھے جیتے جاگتے انسانوں میں بولنا بولنا معلوم ہوتا ہے ورنہ نہیں۔ دوست جانتے ہیں کہ وہ شعر جو ان کی محفل میں سناتا ہوں، اور ہوتا ہے اور وہی جب ریکارڈ ہوتا ہے تو اور ہو جاتا ہے۔ مائیکروفون سے کیا بات کروں؟ یہ ایک تکلیف دہ کشمکش ہے جو مجھے میں نہیں رہنے دیتی۔ اسی کا فائدہ اٹھا کر کبھی کبھی وہ بھونڈا اداکار ناٹک کر جاتا ہے جس سے مجھے نفرت ہے۔
محبت تو مجھے بولنے والوں سے ہے۔ بات کرنے والوں سے۔ کلام زندگی ہے۔ جیسا کہ میں نے شروع میں کہا، میں ہر بولنے والے کو سننے کی کوشش کرتا ہوں۔ شاید آپ نے کبھی محسوس کیا ہو کہ عشوے، غمزے اور ادائیں صرف نگاہ میں نہیں بلکہ آواز میں بھی ہوتے ہیں۔ شاید کبھی آپ نے دیکھا ہو کہ حسن کا جادو نین نقش کے علاوہ لب و لہجہ میں بھی سر چڑھ کر بولتا ہے۔
اس غیرتِ ناہید کی ہر تان ہے دیپک
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو
مجھ سے اداکاری اور ہنروری کی توقع عبث ہے۔ میرا معیار اس آدمی کی آواز ہے جو سچ بول رہا ہو۔ میرا پیمانہ وہ لب و لہجہ ہے جس کی تال دل کی دھڑکنوں سے ملی ہوئی ہو۔ میرا مرشد ایک عام شخص ہے جو گاہے گاہے کوئی بات بےساختگی اور جذبے کے عالم میں یوں کہہ جاتا ہے کہ بدن بوڑھا ہو کر مر جاتا ہے مگر دل سے اس کا لافانی نقش محو نہیں ہوتا۔ لوگ کہتے ہیں کہ بولنا سکھائیے۔ کہاں سے سکھاؤں؟ میرے پاس کوئی قواعد نہیں۔ کوئی اصول نہیں۔ میرا اثاثہ تو بس وہ محبوب آوازیں اور معشوق لہجے ہیں جن کی گونج آپ کو گاہے گاہے میری باتوں میں بھی سنائی دے جاتی ہے۔
میں نے زبان پر اپنی بحثوں میں کہا ہے کہ زبان کا معیار کلام ہے، تحریر نہیں۔ تحریر کلام کی نقل ہے اور بس۔ زبان سیکھنی ہے تو بولنے والوں کو سنیے۔ لکھنے والوں کو پڑھنا بعد کا مرحلہ ہے۔ یہی رویہ قرأت یا تحت اللفظ کی بابت بھی اپنانا چاہیے۔ طرزِ ادا کا معیار عام آدمی ہے۔ وہ جب کوئی بات کہتا ہے اور سچے دل سے کہتا ہے تو آواز، لہجہ، لفظ سب یکجان ہو جاتے ہیں اور بات سیدھی دل میں جا کر لگتی ہے۔ مگر جب وہ جھوٹ بولتا ہے، بناوٹ، تصنع اور تکلف سے بات کرتا ہے تو اسے ہنر کی ضرورت پڑتی ہے۔ اداکاری اور صداکاری سیکھنی پڑتی ہے۔ فنون کے اپنے اپنے قواعد ہیں۔ صداقت اور جذبے کا قاعدہ صداقت اور جذبہ خود ہیں۔
میری زندگی دریا کی موجوں پر کھیلتے ہوئے ایک تنکے کی زندگی ہے۔ منصوبے میں نے کبھی نہیں باندھے۔ باندھے بھی تو یہی سیکھا کہ نہیں باندھنے چاہئیں۔ لہٰذا میں قاعدے کا آدمی نہیں۔ جو کچھ پیش کرتا ہوں، اس کی تیاری، دہرائی یا مشق نہیں ہوتی۔ جو شعر سمجھ میں نہ آئے اسے چھوڑ دیتا ہوں۔ جو کچھ لہجہ پر ہے وہ آپ مجھے سوتے سے اٹھا کر بھی سن سکتے ہیں۔ میری قرأتیں میرا کلام ہیں۔ میرا ہنر نہیں۔
میں یہ کہہ کر بات ختم کرتا ہوں کہ ہر آدمی کے پاس کوئی لفظ یا بات کہنے کا ایسا سلیقہ ہوتا ہے جو دنیا میں کسی اور کو نہیں ہوتا۔ وہ ہر لفظ شاید اچھا ادا نہ کر سکے، ہر بات شاید ٹھیک ٹھیک بیان نہ کر سکے، مگر کبھی نہ کبھی کچھ نہ کچھ ایسا ضرور کہے گا کہ کوئی حسن کا متلاشی، کن رس شخص عش عش کر اٹھے گا۔ اسی ایک لمحے، اسی ایک تان، اسی ایک ادا کی بھیک سرمایۂ فن ہے۔ اہلِ ہنر اصولوں کی کسوٹی پر جانچ کر دیکھتے ہیں کہ اس بات میں تاثیر کیونکر پیدا ہوئی۔ اہلِ دل اسے دل میں اس آرزو کے ساتھ سینت کر رکھ لیتے ہیں کہ کبھی زبان پر آ گئی تو شاید وہ بھی فنکار کہلا سکیں!
٭ میرے یوٹیوب چینل موسوم بہ لہجہ کی پیشکشوں کے تناظر میں لکھا گیا۔