رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی۔ میں خدا جانے کس سوچ میں کھویا ہوا تھا کہ اچانک ایک مسحور کن خوشبو کے احساس نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا۔ میں چونکا۔ وہ خوشبو۔ وہی۔ بالکل وہی خوشبو۔ ایک سرشاری کے عالم میں میں نے اسے خود میں کھینچ لینے کی کوشش کی۔
میں ایف ایس سی میں تھا جب پہلی بار فیضؔ کی نسخہ ہائے وفا ہاتھ لگی تھی۔ شعر و سخن سے دلچسپی تازہ تازہ پیدا ہوئی تھی اور مہدی حسن کی آواز میں فیضؔ کی غزلیں مجھے دنیا و مافیہا سے بیگانہ کر دیتی تھیں۔ پھر فیضؔ ابو کو بھی خاصے پسند تھے اور ابو سے بڑا رومان میری زندگی میں کوئی نہیں رہا۔ نسخہ ہائے وفا ہم دونوں باپ بیٹا مل کر پڑھا کرتے تھے۔ وہ نسخہ ایک مدت کسی انگریزی دوا خانے کے ماحول کا حصہ رہا ہو گا کیونکہ اس سے ایلو پیتھک ادویات کی مخصوص کڑوی مہک آتی تھی۔ پھر شاید کسی خوش ذوق اور جمال پرست کے ہاتھوں سے بھی گزرا جس کی معیت نے ادویات کی مہک میں مہنگے عطریات کی شامہ نواز خوشبوئیں بھی شامل کر دی تھیں۔ اس امتزاج سے ایک عجیب باس پیدا ہوئی تھی جس میں ہلکی ہلکی زہرناکی بھی تھی اور غضب کی دل آرائی بھی۔ میں پڑھتے پڑھتے تھک جاتا تو کلیات چہرے پر رکھ لیتا اور گہری گہری سانسیں لینے لگتا۔ یہ چسکا میرے لیے مطالعے کی لذت سے کسی طور پر کم نہیں تھا۔
آج چودہ برس کے بعد وہ خوشبو خدا جانے کہاں سے آ گئی تھی۔ اب تو نہ وہ کتاب تھی نہ وہ ماحول۔ مجھے حیرت اور تجسس ہوا کہ یہ آ کہاں سے رہی ہے مگر چودہ برس کے فراق کا ہڑکا ایسا تھا کہ میں کچھ سوچنے سمجھنے سے پہلے ہی ایک بےخودی کے عالم اس کے سحر میں گم ہوتا چلا گیا۔ مجھے خبر نہیں تھی کہ میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔
وہ خوشبو تنہا نہیں آئی تھی۔ اس کے ساتھ میں آیا تھا۔ میں۔ چودہ برس پہلے کا راحیلؔ فاروق۔ میرے دل کی دھڑکنیں تھمتی تھمتی تھم رہی تھیں۔ میں سانس روکے اس لڑکے کو دیکھ رہا تھا جو میں تھا۔ دو ہزار پانچ عیسیوی کا راحیلؔ فاروق۔ زندہ سلامت، جیتا جاگتا، موجود و مشہود، میرے سامنے۔ ایک دبلا پتلا، نرم و نازک لڑکا جس کی مسیں بھیگنی شروع ہوئی ہیں۔ جذبات میں تلاطم ہے اور افکار میں تموج۔ امنگیں جوان ہیں اور دل بچہ۔ ادھ کچے امردوں کی سی ناپختہ آرزوئیں ہیں جو کشت زارِ ہستی کا حاصل معلوم ہوتی ہیں۔ ادھ کھلی کلیوں کا سا مزاج جس میں سراسیمگی بھی ہے اور جوشِ ظہور بھی۔ زندگی گویا سچ مچ ایک افسانہ ہے جو بچپن کی کہانیوں سے نکل کر مجسم ہو گیا ہے۔ تمام انسان رشتوں کی ایک اٹوٹ زنجیر سے بندھ کر چچا، ماموں، بھائی، خالہ، پھپھو، بہن اور خدا جانے کیا کیا ہو گئے ہیں۔ باپ سر پر آسمان کی طرح استادہ ہے اور ماں پیروں تلے زمین کی طرح بچھی ہوئی ہے۔ دل میں دنیا کو تسخیر کرنے کے خواب کروٹیں لے رہے ہیں اور دماغ چھوٹے بہن بھائیوں سے جھگڑوں میں الجھ رہا ہے۔ نظامِ ہست و بود دوستوں، اساتذہ، گھر والوں اور بازار کے کچھ کرداروں پر مشتمل ایک ناٹک ہے جو ہر شام ہنسی خوشی ختم ہو جاتا ہے۔ ایک ہمجولی گزرتے ہوئے فقرے کستی ہے اور دل بزرگوں کے خوف سے دھڑک دھڑک جاتا ہے۔ زمانہ ایک موم کے گھر کے سوا کچھ نہیں جسے جب چاہا جیسے چاہا اپنی یا اپنوں کی مرضی سے ڈھال لیا جائے گا۔
میں تو اس راحیلؔ فاروق کو بھول ہی گیا تھا۔ میں یہ تک بھول گیا تھا کہ یہ راحیلؔ فاروق کبھی وجود بھی رکھتا تھا۔ میرا خیال سب کی طرح یہی تھا کہ میں وہ ہوں جو میں ہوں۔ جو مجھے معلوم ہے کہ میں ہوں۔ مگر نہیں۔ ایسا نہیں تھا۔ دو ہزار پانچ عیسوی میں میں یہ نہیں تھا۔ دو ہزار پانچ عیسوی کا راحیلؔ فاروق تو میرے سامنے تھا اور میری حالت اس شخص کی سی ہو گئی تھی جو اندھیری رات میں کسی ویرانے سے گزرتے ہوئے بھوت دیکھ لے۔ بھوت ہی تو تھا۔ میرا اپنا!
مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ یہ تجربہ کسی نہ کسی رنگ میں بہت لوگوں کو ہوا کرتا ہے۔ ہم اچانک کسی روز دریافت کرتے ہیں کہ ہم کوئی اور بھی رہے ہیں۔ جو ہم ہیں اس کے سوا کوئی اور۔ یہ تصویر کی طرح نہیں ہے جو کسی پرانے وقت میں آپ کے ظاہری وجود کا نقشہ کھینچتی ہے۔ یہ پرانی تصویر میں موجود زندہ شخص کی طرح ہے جسے صرف وہ خود جانتا ہے۔ میں نے اس رات اپنے جس وجود کو دریافت کیا وہ اپنی کوئی تصویر دیکھ کر میں خود بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اب بھی نہیں کر سکتا۔ تصویریں تو اکثر نظر سے گزرتی رہتی ہیں اور یہی خیال ہوتا ہے کہ اچھا، تب میں ایسا تھا۔ یہ کر رہا تھا۔ یوں گزر رہی تھی۔ وغیرہ وغیرہ۔ مگر یہ سب تاثرات اس وجود کے ہوا کرتے ہیں جو ہم لمحۂِ موجود میں ہیں۔ ہم اپنے حال کی عینک سے انھیں دیکھتے ہیں۔ کیا قیامت ہے کہ کسی دن ہمارا سامنا اچانک ان تاثرات سے ہو جائے جو ہمارے تب تھے جب وہ تصویر کھینچی جا رہی تھی۔ ہم دوبارہ عیناً وہی ہو جائیں جو ہم اس وقت میں تھے۔ وہی گزرنے لگے۔ وہی بیتنے لگے۔ خدا کی پناہ!
اگر آپ کے ساتھ یہ بیتی نہیں تو شاید آپ اسے کبھی پوری طرح نہیں سمجھ سکتے۔ یہ اپنے آپ سے بالکل اجنبی ہو جانے کی طرح ہے۔ ایسی عجیب و غریب کیفیت ہے کہ گویا آپ کسی شخص سے مل رہے ہوں اور آپ کو پتا چلے کہ وہ شخص دراصل آپ ہی ہیں۔ یہ ایسا جاں گسل اور ہیبت ناک تجربہ ہے کہ میں کہتا ہوں بھوت پریت کا سامنا بھی کیا ہو گا۔ آپ کسی محیر العقول اور مافوق الفطرت مخلوق کو کہیں دیکھ لیں تو کم از کم اپنی ذات کا اعتبار اور سہارا باقی رہتا ہے۔ اس حادثے میں تو یہی ذات تحلیل ہو کر بھوت پریت بن جاتی ہے۔ آپ دہل کر رہ جاتے ہیں۔ آپ ہی اپنا بھوت ہیں۔ کہاں بھاگیں گے؟ کون دیکھے گا اور کون نظر آئے گا؟ کس سے بچیں گے اور کس کو بچائیں گے؟
صاحبو، میری بڑی بھول تھی کہ میں سمجھتا تھا کہ میں کوئی مستقل وجود ہوں۔ آپ کی بڑی بھول ہے اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں۔ یہ تن بیتی ہے، جگ بیتی نہیں۔ سنی سنائی نہیں۔ سوچی سمجھی ہوئی بات نہیں۔ گزری ہوئی واردات ہے۔ جاننا چاہیے کہ انسان صرف ظاہری وجود میں نہیں بلکہ اپنے باطن کی گہرائیوں تک پارے سے بھی زیادہ سیال، متغیر اور ناقابلِ اعتبار شے ہے۔ جتنی تیزی سے منظر بدلتا ہے اس سے زیادہ سرعت سے ناظر بدل جاتا ہے۔ نفسیات اور فلسفہ ظاہراً انسانی روح کی اس سیماب آسائی سے شناسا ہیں مگر شنیدہ کے بود مانندِ دیدہ؟
دیکارت کی طرح مجھے اپنے شعور اور تعقل پر بھروسا کبھی نہیں رہا کہ یہ میرے ہونے کا کوئی ثبوت ہو سکتا ہے۔ مگر اپنے ہونے کا ایک وجدانی سا احساس بہرحال تھا سو یوں جاتا رہا۔ کیا ہوں میں؟ ظاہری وجود تو ظاہر ہے نہیں ہوں ورنہ مرنے کے بعد لوگ گاڑ آنے کی بجائے مجھے حسبِ دستور راحیلؔ فاروق ہی سمجھیں اور اسی طرح برتاؤ کرتے رہیں۔ مگر ہائے۔ باطنی وجود بھی تو نہیں ہوں۔ چودہ برس پہلے ایک اور باطن تھا۔ اٹھائیس برس پہلے اور ہی کچھ تھا۔ جیتا رہا تو چودہ برس بعد کوئی اور ہو گا۔ میں کون؟
باری تعالیٰ نے سورۂِ بنی اسرائیل میں بڑی عجیب بات کہی ہے۔
وَيَسْاَلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ ۖ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّىْ وَمَآ اُوْتِيْتُـمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا (85)
اور یہ لوگ تجھ سے روح سے (متعلق) سوال کرتے ہیں۔ کہہ دے کہ روح میرے رب کے امر سے ہے اور تم علم نہیں دیے گئے مگر تھوڑا۔
عالمِ کن فیکوں بھی اس کا امر ہے اور اپنی ہستی میں کتنا بےثبات۔ روح بھی اس کا امر ہے اور اپنی اصل میں کیسی ناپائدار۔ عجیب بات ہے کہ فارسی میں روح کو رواں کہتے ہیں۔ روح و رواں کی ترکیب جسے عوام روحِ رواں بولتے ہیں عام مستعمل ہے۔ رواں کے دوسرے معانی بہتے ہوئے کے ہیں۔ دنیا کی اکثر زبانوں میں روح کے لیے جو الفاظ ہیں وہ سانس یا خون سے تعلق رکھتے ہیں۔ دونوں سیال۔ بےشکل۔ بےقرار۔ متغیر۔ بہنے والے کی کیا صورت؟ کیا ہستی؟ کیا اختیار؟ کیا ثبات؟ کیا استقلال؟
اقبالؔ نے اپنی ایک نظم بعنوان آدم میں یہ قصہ عجیب رنگ میں پاک کیا ہے۔
طلسمِ بود و عدم جس کا نام ہے آدم
خدا کا راز ہے قادر نہیں ہے جس پہ سخنزمانہ صبحِ ازل سے رہا ہے محوِ سفر
مگر یہ اس کی تگ و دو سے ہو سکا نہ کہناگر نہ ہو تجھے الجھن تو کھول کر کہہ دوں
وجودِ حضرتِ انساں نہ روح ہے نہ بدن
خس کم جہاں پاک!