موت!
ہنسی آتی ہے اس لفظ پر۔ اس حقیقت پر۔ اس خطرے پر۔ اس بےخبری پر۔
پرانے زمانے کی بات ہے جب میں دین و مذہب سے بیگانہ ہو کر فلسفے کے بیابانوں میں دادِ جنون دے رہا تھا۔ میرا ایک دوست جسے احمق ترین لوگ بھی احمق سمجھتے تھے اکثر میری بیٹھکوں میں ہونے والی گفتگوؤں کو نہایت انہماک سے سنا کرتا تھا۔ ایک دن جب اتفاق سے کوئی اور شخص موجود نہ تھا، اسے اپنی فلسفہ دانی خالی کرنے کا موقع مل گیا۔
اس نے سگریٹ کا ایک دانشورانہ کش لیا اور چھت کی طرف دیکھتے ہوئے مجھے مخاطب کیا:
"راحیل! ہر چیز پر شک کیا جا سکتا ہے۔ مگر ایک بات ہر شک و شبہ سے بالاتر ہے۔”
میں نے کہا:
"گدھے! دیکارت نے وہ ایک چیز تیرے پرکھوں کی پیدائش سے بھی پہلے دریافت کر لی تھی۔ مگر اب وہ پھر سے کھو گئی ہے۔”
وہ گھبرا گیا۔
"کیا؟”
میں نے کہا:
"دیکارت کا فرمان ہے کہ میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں۔ یعنی صرف انسان کا شعوری وجود ایسی چیز ہے جس پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن یہ دیکارت کا خیال ہے۔ میں تو دیوانگی کی منازل سے گزرا ہوں۔ میں نے دیکھا ہے کہ شعور کی بھی موت واقع ہو جاتی ہے۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ شعور یا تفکر خود محض ایک آنی و فانی شے ہے۔ اس پر بھی یقین نہیں کیا جا سکتا۔”
میرا احمق دوست گھٹی ہوئی آواز میں کہنے لگا:
"یہی تو میں کہہ رہا ہوں۔”
میں نے اس کی طرف دیکھا۔
مجھے علم نہیں تھا کہ وہ ایک ایسی بات کہنے والا ہے جو زندگی بھر میرے ساتھ رہے گی۔ بلکہ شاید موت کے بعد بھی!
اس نے کہا:
"موت یقینی ہے۔ صرف موت!”
میں بھونچکا رہ گیا۔
مجھے موت سے بہت ڈر لگتا تھا۔ اتنا کہ میں زندگی سے بدظن ہو گیا تھا۔ اس لیے میں نے مذہب کو سمجھنا چاہا تھا۔ ملاؤں سے مایوس ہو کر میں فلسفے کی جانب متوجہ ہوا تھا۔ کیا کیا نہ پڑھا تھا۔ کیا کیا نہ سوچا تھا۔ کہاں سے کہاں پہنچ گیا تھا۔ مگر اس نہج پر کبھی نہ سوچا تھا۔ موت سے گریز کی تمنا ہمیشہ رہی تھی مگر اس کا تیقن کبھی نصیب نہ ہوا تھا۔ کمبخت ایک عفریت کی طرح اپنے پیچھے دوڑتی ہوئی تو معلوم ہوتی تھی مگر کبھی آگے نظر نہ آئی تھی۔
میں سوچ میں پڑ گیا۔ سوچتا رہا۔ سوچتا رہا۔ پھر قبول کر لیا۔
اب میں مرنے کے لیے تیار ہوں۔ خدا سے دعا کیا کرتا ہوں کہ الٰہی، مجھے دمِ نزع خوف یا ہیجان میں مبتلا نہ کیجیو۔ مجھے ہمت دیجیو کہ انتقال یعنی ایک دنیا سے دوسری کا سفر اس وقار سے اختیار کروں جو تیرے بندوں کو زیبا ہے۔ توفیق دیجیو کہ میں زندگی میں جب آخری بار مسکراؤں تو موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے مسکراؤں۔
اگر آپ ایک فلسفی ہیں تو شاید میری اس تغییرِ افکار پر ہنس رہے ہوں گے۔ سوچ رہے ہوں گے کہ اکیسویں صدی میں جب انسان موت کو شکست دینے کے نہ صرف خواب دیکھ رہا ہے بلکہ تعبیر کے پاس جا پہنچا ہے، اس کھڑوس آدمی نے موت کے سامنے ہار مان لی۔ تشکیک جیسے مقدس رویے کو مذہبی دیومالا پر قربان کر دیا۔ دھت تیرے کی!
آپ درست کہتے ہیں۔ موت یقینی نہیں ہے۔ آدمی اس سے بچ سکتا ہے۔ مگر میں بھی درست کہتا ہوں۔ موت یقینی ہے!
ہائیں؟
ٹھہریے، یہ قضیہ تب تک فیصل نہ ہو گا جب تک ہم یہ طے نہ کر لیں گے کہ موت ہے کیا۔ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ میں کیا سمجھا ہوں۔ موت کیا ہے؟
موت فنا نہیں ہے۔ فنا محض ایک واہمہ ہے۔ بقا حقیقت ہے۔ ہم فنا کا تصور تک نہیں کر سکتے۔ بقا ہمارے اندر رچی بسی ہوئی ہے۔ ہمارے جسم کے مادے سے لے کر ہماری روح کی تڑپ تک۔
موت دراصل سختی کا نام ہے۔ اکڑ جانے کا نام ہے۔ ردِ عمل دینے کی صلاحیت سے محروم ہو جانے کا نام ہے۔ زندگی کا سامنا کرنے کی بجائے اس کے اشاروں پر ناچنے کا نام ہے۔ دریا کے مخالف تیرنے کی بجائے دھارے کے ساتھ بہتے جانے کا نام ہے۔ خاموشی اور سکوت کا نام ہے۔ اندھیرے کا نام ہے۔ تحرک اور تشخص سے محروم ہو جانے کا نام ہے۔
ایک کنکر ہاتھ میں لے کر چھوڑ دیجیے۔ وہ زمین پر جا رہے گا۔ ایک چوزہ ہاتھ میں تھام کر چھوڑیے۔ وہ پھڑپھڑا کر آپ کے ہاتھ پر چڑھنے کی کوشش کرے گا۔ کنکر مردہ ہے۔ سخت ہے۔ سرد ہے۔ کششِ ثقل کا غلام ہے۔ زندگی کے اشاروں پر ناچتا ہے۔ چوزہ زندہ ہے۔ نرم ہے۔ گرم ہے۔ مزاحمت کرتا ہے۔ کششِ ثقل کے خلاف جدوجہد کرتا ہے۔ مقابلہ کرتا ہے۔ تحرک ظاہر کرتا ہے۔ تشخص ظاہر کرتا ہے۔ یہ ہے زندگی اور موت کا فرق!
زندگی اپنی شناخت کا نام ہے۔ اپنے آپ کا نام ہے۔ موت شناخت کھو بیٹھنے کا نام ہے۔ اپنا آپ کھو بیٹھنے کا نام ہے۔
کائنات زندہ ہے۔ اپنی شناخت رکھتی ہے۔ اپنے قاعدے پر چلتی ہے۔ کائنات کے مردہ عناصر اس کے قاعدے کی پابندی کرتے ہیں۔ زندہ چیزیں بغاوت کرتی ہیں۔ کیا بغاوت زندگی کا ایک اور نام ہے؟
یقیناً۔
اب مجھے احساس ہوتا ہے کہ بظاہر زندہ ہوتے ہوئے بھی انسان کس قدر مردہ ہوتا ہے۔ بھوک، شہوت، دولت، حرص، ترغیب، غصہ، غم، نفرت، لذت، خوف۔۔۔۔ چھوٹی چھوٹی قوتیں انسان کو بےجان پتلی کی طرح اپنے اشاروں پر نچاتی ہیں۔ انسان بغاوت نہیں کرتا۔ پھڑپھڑاتا نہیں۔ مزاحمت نہیں کرتا۔ جدوجہد نہیں کرتا۔ مقابلہ نہیں کرتا۔ اپنی شناخت قائم نہیں کرتا۔ دھارے میں بہہ جاتا ہے۔ سخت، سرد اور بےجان کنکر کی طرح۔ ہر قوت کے دامن میں کھٹ سے آ گرتا ہے۔
قرآن کے مطابق مومن کی شناخت یہ ہے کہ نعمت مل جانے پر اوقات سے باہر نہیں ہوتا اور آزمائش میں ناشکری نہیں کرتا۔ غور کیا جائے تو یہ ہماری تعریف کے مطابق زندگی کی معراج ہے۔ اچھے حالات میں متکبر ہو جانا اور برے میں شکوہ و شکایت پر اتر آنا حالات کے دھارے میں بہہ جانے کے مترادف ہے۔ مومن نعمت کے عطا ہونے پر تکبر کی مزاحمت کرتا ہے اور واپس لے لیے جانے پر ناشکری کی۔ کیونکہ یہی زندگی ہے۔ یہی بغاوت ہے۔ یہی تشخص ہے!
مجھے کہنے دیجیے کہ زندگی صرف شناخت ہی نہیں بلکہ ایک اعزاز کا نام بھی ہے جو بہتوں کو تمام عمر نصیب نہیں ہوتا۔ ہم میں سے اکثر حالات کے دھارے کے ساتھ بہتے رہتے ہیں۔ بغاوت نہیں کرتے۔ اپنے وجود، اپنی زندگی کا ثبوت نہیں دیتے۔ اپنی شناخت قائم نہیں کرتے۔ اس موت سے ڈرنا چاہیے۔
اس موت سے نہیں ڈرنا چاہیے جو ایک دنیا سے دوسری دنیا کے سفر کا نام ہے۔ کیونکہ وہ انتقال ہے۔ حرکت ہے۔ جو صرف زندہ لوگوں کا نصیب ہے۔ جو مردہ ہیں ان بیچاروں کی کیا موت۔ کیسا انتقال؟
پابندئِ تقدیر کہ پابندئِ احکام
یہ مسئلہ مشکل نہیں اے مردِ خرد مند
اک آن میں سو بار بدل جاتی ہے تقدیر
ہے اس کا مقلد ابھی ناخوش، ابھی خُورسند
تقدیر کے پابند نباتات و جمادات
مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند
(اقبالؔ)