دشوار کاموں میں بڑا دشوار یہ ہے کہ اپنی شکست تسلیم کی جائے۔ اپنے عجز کا اعتراف کیا جائے۔ خود کو نیچ اور نیچا مان لیا جائے۔ دفتر کے صاحب کی چاکری سے لے کر مالکالملک کی بندگی تک بشر کی زندگی کا کوئی مقام نہیں جہاں اسے اس دشواری کا سامنا نہ ہوتا ہو۔ ہر کوئی ہر جگہ ہر وقت کسی نہ کسی روپ میں ہارتا ہے مگر ہار ماننے کا ہنر نہیں سیکھ پاتا۔ کتنی عجیب بات ہے!
مجھے میرے ایک مرحوم استاد اکثر یاد آتے ہیں۔ وہ ہمارے پیٹی ماسٹر ہوا کرتے تھے۔ اللہ جنت نصیب فرمائے۔ اونچے لمبے قد کے وجیہہ ریٹائرڈ فوجی۔ ہاتھ میں چھڑی۔ سر پر ٹوپی۔ سینہ یوں تنا ہوا کہ گویا کسی نے کمر میں ہتھوڑا مار کر اسے آگے کو ابھار دیا ہو۔ مگر پھر بھی نجانے کیوں کبھی کبھی لگتا تھا کہ وہ چلتے چلتے گر پڑیں گے۔ پیٹی تو ہم نے کم کم ہی کی مگر ان کے پاس ہفتے میں دو چار بار کسی نہ کسی پیریڈ میں بیٹھنے کا موقع مل جایا کرتا تھا۔ ان کی باتیں سننے میں بڑا مزہ آتا تھا۔ بڑا سوز اور بڑا درد تھا ان کی گفتگو میں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ انسان درد سے اس طرح بھی محظوظ ہوتا ہے۔
وہ اکثر ایک فقرہ بولا کرتے تھے۔ ناک سکیڑ کر، آنکھوں کو ماتھے پر چڑھا کر، ہونٹ بھینچ کر، چھڑی زور سے پٹخ کر۔ ایسی حقارت سے گویا کسی مہذب بابو کا جی کسی خارشزدہ کتے کو دیکھ کر متلا گیا ہو۔
"اے نوں موری آلا انسان۔۔۔”
نو موری والا انسان؟
دبی دبی ہنسی سنائی دیتی۔ لڑکے کھسر پھسر کرنے لگتے۔ موریاں گنی جانے لگتیں۔ پیٹی صاحب (انھیں پیٹیآئی کہنے میں مجھے ہمیشہ تامل رہا!) بولے چلے جاتے۔ مگن۔ اپنی ہی دھن میں۔ میرا خیال ہے کہ ان کے منہ سےیہ فقرہ ہمیشہ ایک مجذوبیت کی سی کیفیت میں نکلتا تھا ورنہ کبھی نہ کبھی انھیں ضرور احساس ہوتا کہ ان کے مخاطبین اب ان کے درد کے سفر میں شریک نہیں رہے بلکہ ایک طرف پڑاؤ ڈال کر موریوں کی درست تعداد پر بحث کرنے لگے ہیں۔
پیٹی صاحب کو جب ہم نے دیکھا تو وہ ایک عاشق تھے جس کا محبوب اس سے دور ہو گیا تھا۔ اس وقت ہم میٹرک میں تھے۔ یہ خبر نہ تھی کہ بابا جی کو کیا روگ لگا ہوا ہے۔ بعد کو ان کے بیٹے سے دوستی ہو گئی۔ معلوم ہوا کہ ان کا ایک بیٹا کمانے کو یورپ نکلا تھا اور پھر اس کی خبر نہ ملی۔ پیٹی صاحب روایتی آدمی تھے۔ مرد بن کے جینے پر مجبور تھے۔ بیٹے کے فراق پر مسکراہٹ، وسیعالمشربی اور بذلہسنجی وغیرہ کی ملمعکاریاں کر کے سینہ تان کے گھوما کرتے۔ تمام دن آوارہگردی، اچھلکود اور ہنسیمذاق کے بعد گھر پہنچتے۔ رات بھر شراب پیتے۔ روتے۔ سجدے کرتے۔ دعائیں کرتے۔ پھر پیتے۔ پھر روتے۔ پھر سجدے میں گرتے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ان کی تمام تر شفقت کے باوجود ان کی آنکھوں کے دہکتے ہوئے انگاروں سے ڈر لگتا تھا۔
پیٹی صاحب کو احساس ہو گیا تھا کہ وہ ہار گئے ہیں۔ خدا کا فیصلہ انھیں ماننا پڑے گا۔ مگر جیسا میں نے اوپر عرض کیا یہ بہت مشکل کام ہے۔ وہ راتوں کی خلوت میں تو شاید اعترافِ شکست کیا کرتے ہوں گے مگر دن کو انھوں نے چھاتی کے تناؤ میں کمی نہیں آنے دی۔ لیکن ماننے نہ ماننے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ شکست ایک حقیقت تھی۔ اتنی بڑی حقیقت کہ پیٹی صاحب کو انسان کی انسانیت سے نفرت ہو گئی۔ بشریت انھیں عار معلوم ہونے لگی۔ آدمی کی کمزوری ننگی ہو کر ان پر کھل گئی اور انھوں نے اپنی مخمور آنکھیں آسمان میں گاڑ کر، ناک سکیڑ کر، زمین پر چھڑی پٹخ کر، پتھرائے ہوئے ہونٹوں سے گویا تھوکنے کی کوشش کی، "اے نوں موری آلا انسان!”
شاید انھیں کبھی یہ احساس نہیں ہوا کہ وہ اس طرح دن کی روشنی میں لوگوں کے سامنے اپنی مردانگی اور دلاوری کو بالائے طاق رکھ کر شکست تسلیم کر رہے ہیں۔ اگر ہوتا تو وہ اس سے بھی پہلے مر جاتے جب لوگوں نے ان کا جنازہ اٹھایا۔
میں سوچتا ہوں کہ انسان کی شکست، اس کا عجز، اس کی کمزوری بہت بڑی حقیقت ہے۔ ماننے نہ ماننے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ حقیقت ہماری زبانوں کی محتاج تو نہیں ہے۔ ہم اعتراف نہیں کریں گے تو کیا بگاڑ لیں گے اس کا؟ اور اعتراف بھی کب تک نہ کریں گے؟ کب تک؟
مجھے یہ باتیں اس لیے یاد آئیں کہ آج میں رات گئے گھر لوٹا۔ بازار بند تھا۔ مگر ایک ادھکھلی دکان میں مدھم سی روشنی تھی اور دھیمی دھیمی موسیقی سنائی دے رہی تھی۔ یہ ہمارے شہر کے ایک معروف دیوبندی شخص کی روزی کا اڈا تھا۔ وہ شخص شیعوں کے ساتھ کئی بار مارکٹائی کے بعد اب غازی کے لقب سے جانا جاتا ہے۔ میں مسکرا دیا اور سوچنے لگا کہ کیا یہ بھی اعترافِ شکست ہے؟ غازی صاحب دن کی روشنی میں تو کبھی نہیں مان سکتے کہ ان کا مسلک زمانے کے ساتھ چلنے میں ناکام ہو گیا ہے۔ مگر کیا رات کے سناٹے میں لطیف لطیف ارتعاشات پیدا کرتی ہوئی یہ دلنواز موسیقی ان کے دل پر اس احساس کی ضربیں نہ لگاتی ہو گی کہ وہ ہار گئے ہیں؟ ان کی ڈاڑھی پیٹی صاحب کی چھاتی کی طرح محض زمانے کو الو بنانے کے لیے ہے؟ ان کی مسلکی کتابوں کے حلقسوز عربی حوالے پیٹی صاحب کی مخمور آنکھوں کی طرح دوسروں پر رعب جمانے کے سوا کسی بھی کام کے نہیں؟
ہم شاید ہار اس لیے نہیں ماننا چاہتے کہ ہمیں لگتا ہے اس سے فرق پڑے گا۔ ہم نہیں مانیں گے تو شکست کا کسی کو علم نہیں ہو گا۔ مگر یہ محض انسان کی غلطفہمیوں میں سے ایک غلطفہمی ہے۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ جس طرح جھوٹے کی آنکھیں پھیل جاتی ہیں۔ چور کے ہاتھ کانپ جاتے ہیں۔ بدنیت کا دل دھک دھک کرنے لگتا ہے۔ اسی طرح ہمارے نو موری والے بدن کا رواں رواں ہماری زبان کے خلاف گواہی دینے پر مستعد ہو جاتا ہے۔ ہمارے اعمال و افعال چیخ چیخ کر اعلان کرنے لگتے ہیں کہ ہم ہار گئے ہیں۔ ننگی حقیقت خود ہماری ملمعکاریوں کے پردے پھاڑ کر قہقہے مارتی ہوئی نکل آتی ہے۔ دنیا کے چھ ارب انسان یکزبان ہو کر کہیں کہ مچھر ہمالہ سے بڑا ہوتا ہے تو بھی ہمالہ کی بلا جانے۔ ماننے نہ ماننے سے فرق ہی کیا پڑتا ہے؟
امریکہ نہیں مانتا کہ اس کا روشن خواب ٹوٹ گیا ہے۔ پاکستانی نہیں مانتا کہ وہ ترقییافتہ دنیا کے کتوں سے بھی بدتر زندگی بسر کر رہا ہے۔ ادیب نہیں مانتا کہ وہ بےادب ہو گیا ہے۔ مسلمان نہیں مانتا کہ اس کی صدیوں پرانی فقہ آثارِ قدیمہ سے زیادہ اثر نہیں رکھتی۔ میں نہیں مانتا کہ میں بےعلم ہوں۔ کیا فرق پڑتا ہے؟
کچھ بھی نہیں!