موتی سمندر میں پیدا ہوتا ہے مگر سمندر کے لیے پیدا نہیں ہوتا۔ پانیوں کی اندھی گہرائیوں اور لہروں کے دبنگ تھپیڑوں میں سے آج نہیں تو کل نکل آئے گا اور انسانوں کی بستی میں بیچا جائے گا۔ کسی تخت پر دمک دمک اٹھے گا یا کوٹ پیٹ کر کشتہ کر دیا جائے گا۔ آج نہیں تو کل۔
بشر بھی شاید ایک ایسا ہی موتی ہے۔ دنیا میں پیدا ہوتا ہے مگر دنیا کے لیے نہیں۔ اپنے مشاغل و علائق کی اندھی گہرائیوں اور حوادثِ زمانہ کے دبنگ تھپیڑوں سے آج نہیں تو کل نکال لیا جائے گا اور کسی اور بستی میں لے جا کر آنکا جائے گا۔ کسی تخت پر دمک دمک اٹھے گا یا کوٹ ڈالا جائے گا۔ آج نہیں تو کل۔
موتی سمندر میں پیدا ہوتا ہے مگر پانی کا یہ لامحدود جہان اسے پانی نہیں بنا سکتا۔ وہ موتی ہی رہتا ہے۔ شاید اس لیے کیونکہ وہ سمندر کی وسعتوں میں قطرہ بھر اضافے کی غرض سے پیدا نہیں کیا گیا۔ بشر کا یہی حال ہے۔ کائنات میں رہتا ہے مگر لاکھ جتن کر لے کائنات کا حصہ نہیں بن پاتا۔ بشر ہی رہتا ہے۔ اسے اس لیے پیدا نہیں کیا گیا۔
یہ دو جہان ہیں، صاحبو۔ موتی کا جہان اور سمندر کا جہان۔ اندر کا جہان اور باہر کا جہان۔ بشر کا جہان اور زمانے کا جہان۔ کائناتِ اصغر اور کائناتِ اکبر۔ کچھ بھی کہہ لیجیے۔ نام میں کیا رکھا ہے؟
انسان ایک ہی وقت میں دونوں جہانوں میں جیتا ہے۔ مگر اکثر بےخبر رہتا ہے۔ زمانے کے سمندر میں آنکھ کھولنے کے بعد اس کے لیے یہ گمان کرنا نہایت دشوار ہو جاتا ہے کہ وہ خود اس کا حصہ نہیں ہے۔ وہ اردگرد کے پانی کی طرح پانی نہیں ہے۔ وہ موتی ہے۔ آج نہیں تو کل نکال لیا جائے گا۔ کبھی کبھی جب وہ کسی چٹان کی درز میں اٹک جاتا ہے، کسی مچھلی کے جبڑوں میں پھنس جاتا ہے تو اسے دھچکا لگتا ہے۔ اردگرد کا پانی بہتا رہتا ہے۔ وہ نہیں بہہ پاتا۔ اٹکا رہ جاتا ہے۔ اسے شبہ سا ہوتا ہے کہ وہ شاید اس سمندر کے پانی کی طرح نہیں ہے۔ اس کی ماہیئت کچھ اور ہے۔ مگر پھر وقت کی متلون رَو وہ رکاوٹ دور کر دیتی ہے۔ وہ پھر سے زمانے کی طرح زمانے کے پانیوں میں بہنے لگتا ہے۔ پھر گمان کرتا ہے کہ وہ بھی پانی ہی ہے۔ وہ پانی جو شاید زمانے کے سمندر میں بہت بڑا اضافہ ہے۔ قطرہ بھر اضافہ!
انسان کی یہ بےخبری اسے سکھ نہیں پانے دیتی۔ چین نہیں لینے دیتی۔ موتی کو پانی ہونے کی تگودو لے ڈوبتی ہے۔ پانی تو خیر کیا ہو گا۔ موتی ہونے سے بھی جائے گا۔ نکالا جائے گا تو آنکا جائے گا۔ سُچا نہ نکلے گا تو کوٹ ڈالا جائے گا۔
مگر بات صرف اتنی بھی تو نہیں ہے۔
دو جہانوں کی زندگیاں، عزتیں اور دولتیں۔۔۔ سب کچھ مختلف ہے۔ گویا ہاتھی کے دانت ہیں۔ کھانے کے اور دکھانے کے اور۔ دولت ہی کو لیجیے۔ ایک باہر کی دنیا کی ہے۔ جہانِ اکبر کی دولت جسے دیکھ کر زمانہ مجھ پر رشک کرتا ہے۔ گمان کرتا ہے کہ میں بہت خوش اور پرسکون ہوں گا۔ لیکن کچھ میں ہی جانتا ہوں کہ کتنا خوش اور پرسکون ہوں۔ ایک جہانِ اصغر کی دولت ہے۔ اندر کی دنیا کی۔ مجھ کو خوشی اور طمانیت سے بھر دیتی ہے۔ سرشار و سرمست کر دیتی ہے۔ مگر زمانے کو کیونکر دکھاؤں؟ اس کی آنکھ سے تو میں غریب، مفلوک الحال یہاں تک کہ قابلِ رحم نظر آتا ہوں۔ گویا ایک دولت ہے جس سے کوئی چین پاتا ہے۔ دوسری ہے جس سے لوگ خیال کرتے ہیں کہ کوئی چین سے ہو گا۔ کھانے کے دانت ضروری تو نہیں کہ دکھانے کے لیے نکال بھی رکھے جائیں۔ دکھانے کے دانت لازم تو نہیں کہ چبانے کے کام بھی آئیں۔
کیا مذاق ہے کہ میں اس دولت پہ خوش ہوں جو دوسروں کو میری خوشی کا جھوٹا سچا یقین دلا سکے۔ اور اس کی جانب سے غافل رہوں جو مجھے سچ مچ خوش کر دے۔
یہی حال زندگی کا ہے۔ یہی حال عزت کا ہے۔ یہی حال رزق کا اور اولاد کا ہے۔ یہی حال محبت کا ہے۔ دونوں جہانوں کے سرمائے اور ہیں۔ موتی کا اثاثہ اور ہے قطرۂِ آب کا اور۔ ایک سمندر میں پیدا کیا گیا ہے اور دوسرا سمندر کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ موتی پانی کا قطرہ بننے اور اس میں شان پیدا کرنے کی جستجو کرے گا بھی تو تابکے؟ پانی بہرحال نہیں بن پائے گا۔ بلکہ موتی بھی نہ رہ جائے گا۔ کل کو کسی بستی میں آنکا گیا تو کوٹ ڈالا جائے گا۔
لوگ سوچتے ہیں انھیں سکون کیوں نہیں ملتا۔ دولت سے، رشتوں سے، عزتوں سے، اولاد سے، محبتوں سے، نعمتوں سے۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ موتی کو پانی کی خوبیاں راس آئیں تو کیسے؟ اندر کو باہر کی فراوانی پچے تو کیوں؟ بشر دنیا کی نعمتوں سے قرار پائے تو کیونکر؟ ہاتھی دکھانے کے دانتوں سے کھائے تو کیا؟
دونوں جہان میرے رب کے ہیں۔ اسی لیے وہ رب العالمین کہلاتا ہے۔ ربِ دو جہان۔ مگر اس نے قطروں کو سمندر بھرنے کے لیے پیدا کیا ہے اور موتی کو تخت کی زینت بننے کے لیے۔ موتی کے لیے غیرت کا مقام ہے کہ وہ قطرہ بننے کی تگودو تو کیا اس کی آرزو بھی کرے۔ مگر بشر ظلوم و جہول ہے۔ دو جہانوں کا رب سوائے اس کے اور کیا کہے کہ کمبخت نے گھاٹے کا سودا کیا۔
لوگ خیال کرتے ہیں کہ آخرت دنیا کے بعد آغاز ہوتی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ موتی پیدا ہوتے ہی موتی ہوتا ہے۔ اس کی سمندر کے اندر زندگی بھی موتی کی زندگی ہے، پانی کی نہیں۔ انسان اس دوسرے جہان کو جس کا وہ حقیقی باشندہ ہے موتی کی طرح اپنے ساتھ اپنے اندر لیے پھرتا ہے۔ خواہ وہ اس کی بہشت ہے خواہ دوزخ۔ کتنے ہیں کہ جن کے دل مصائب کے گھور اندھیروں میں بھی ایسے شاد ہیں جیسے سمندر کی اندھی تہہ میں کوئی موتی جگمگ جگمگ کرتا ہو۔ کتنے ہیں کہ آسائشوں میں بھی اس اذیت کا شکار ہیں کہ گویا سمندر ہی میں موتی کا کھوٹ ننگا ہو کر سامنے آ گیا ہو۔
فَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِى الـدُّنْيَا وَمَا لَـهٝ فِى الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ وَمِنْـهُـمْ مَّنْ يَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِى الـدُّنْيَا حَسَنَةً وَّّفِى الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّّقِنَا عَذَابَ النَّارِ اُولٰٓئِكَ لَـهُـمْ نَصِيْبٌ مِّمَّا كَسَبُوْا ۚ وَاللّـٰهُ سَرِيْعُ الْحِسَابِ
(البقرہ – ۲۰۰ تا ۲۰۲)
پھر لوگوں میں سے ہے جو کہتا ہے کہ اے ہمارے رب، ہمیں دنیا میں دے اور اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اور انھی میں سے ہے جو کہتا ہے کہ اے ہمارے رب، ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ یہی ہیں وہ جن کے لیے ان کےکیے کا پھل ہے۔ اور اللہ جلد حساب کرنے والا ہے۔