دنیائے منشیات میں سگریٹ کو جو امتیازی مقام حاصل ہے اس کی کچھ مسکت قسم کی وجوہ ہیں۔ لیکن پہلے تو یہ سمجھ لیجیے کہ سگریٹ نوشی کیا ہے۔ بلکہ اس سے بھی پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ سگریٹ نوشی کیا نہیں ہے۔ کیونکہ دیکھا گیا ہے کہ عوام الناس اکثر اپنی کوتاہ بینی کے باعث سگریٹ نوشوں اور چرسیوں کو ایک ہی قوم سمجھ بیٹھتے ہیں جس سے پیدا ہونے والے خلطِ مبحث کا کوئی حل نہیں۔ پھر اگر اصیل قسم کے سگریٹ نوش مشتعل ہوں یا احتجاج کریں تو بدطینت مخالفین اسے گیس پر محمول کر کے ان کی باقی ماندہ براہینِ قاطعہ کو بھی یک قلم مسترد کر دیتے ہیں۔ اس درمیانِ قعرِ دریا تختہ بندم کرنے سے شرفا کی عزتِ نفس کو جو ٹھیس پہنچتی ہے اسے کچھ ہم ہی جانتے ہیں۔ نیز اس جذباتی استحصال کے ردِ عمل میں عین ممکن ہے کہ کچھ لوگ واقعی چرس پینا شروع کر دیتے ہوں۔ لیکن خیر، چرس نہ بھی شروع کریں تو کم از کم جوتم پیزار کی تو کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ پس ثابت ہوا کہ یہ طے کر لینے ہی میں جانبین کا فائدہ ہے کہ سگریٹ نوشی کیا نہیں ہے۔
سب سے اہم معاملہ تو یہی سگریٹ اور چرس نوشوں کے مابین فرق کا ہے۔ اس فرق کو منطقی طور پر کچھ یوں بیان کیا جا سکتا ہے:
ہر چرس نوش سگریٹ نوش ہوتا ہے۔
ہر سگریٹ نوش چرس نوش نہیں ہوتا۔
عوام پہلے قضیے کو تو خوب جانتے ہیں مگر دوسرے کی بابت کچھ مجرمانہ سی غفلت کا شکار ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ دانستہ غور نہ کرتے ہوں کیونکہ عوام کی خواص دشمنی بھی مشہور ہے۔ بہرحال، اتمامِ حجت کے لیے ہم کچھ زود فہم مگر اظہر من الشمس علامات نقل کرتے ہیں جن سے ہر دو گروہ کا فرق بادی النظر میں معلوم کیا جا سکے گا۔ گو کہ ہمیں خبر ہے کہ مکار دشمن پھر بھی شبخون مارنے سے باز نہیں آئے گا لیکن کم از کم انصاف پسند طبائع کی ہمدردیاں تو ہمارے ساتھ ہو ہی جائیں گی۔ ہم اسی پر قناعت کرنے کو تیار ہیں۔ اللہ بس، باقی ہوس!
تو صاحبو، پہلی بین علامت یہ سمجھ لیجیے کہ چرسی حضرات آپ کو کبھی اکیلے نظر نہیں آئیں گے۔ سیاستدان اکیلا تقریر کر سکتا ہے، سکھ اکیلا ڈیٹ پر جا سکتا ہے، بھانڈ اکیلا گا سکتا ہے مگر کوئی چرسی تنہا چرس نہیں پی سکتا۔ چرس مل بیٹھ کر اور مل بانٹ کر ہی پی جاتی ہے۔ زمانۂِ حال کے بعض آزاد بلکہ آزاد مصدر مبصرین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ مارکس نے اشتراکیت کا تصور دراصل چرسیوں ہی سے مستعار لیا تھا۔ اس پر چرسی بھی مصر ہو گئے ہیں کہ مارکس کو فوت ہونے سے قبل بھلے لوگوں کی طرح یہ تصور ثابت و سالم واپس کرنا چاہیے تھا۔ بعض کا قول ہے کہ اشتراکی اسی قسم کی بدمعاشیوں کے طفیل نہ صرف کامیاب بلکہ ناکام بھی ہو گئے ہیں۔ ان مباحث سے مترشح ہوتا ہے کہ چرسیوں کے ہاں تصور کا تصور غالباً کافی مختلف ہے۔ خیر، مارا چہ ازیں قصہ کہ گاؤ آمد و خر رفت۔
پھر یہ ہے کہ سلسلۂَ عالیۂِ چرسیہ عموماً نہایت مرنجاں مرنج قسم کے بزرگوں پر مشتمل ہے۔ بزرگ ہم نے اس لیے کہا کہ زیادہ تر شکل ہی سے زمانۂِ فراعین کے معلوم ہوتے ہیں۔ اور اس لیے بھی کہ ان کے اندر بلوغت اکثر و بیشتر منتہائے کمال کو پہنچی ہوئی پائی گئی ہے۔ یعنی پیروں پر پانی نہیں پڑنے دیتے۔ ایک صاحب کی مثال ہم آپ کی اور ان کی اپنی اجازت کے بغیر آپ کو دینا چاہتے ہیں۔ جوں جوں نشہ طلوع ہوتا جاتا ہے ان حضرت کے ہونٹوں پر ایک گوتمی سی مسکراہٹ نمودار ہونےلگتی ہے گویا مایا کے تمام پردے یکے بعد دیگرے ان کی آنکھوں کے سامنے چاک ہوتے جا رہے ہیں۔ بازیچۂِ اطفال ہے دنیا مرے آگے!
چونکہ تجسس و تفحص کا مادہ ہر کس و ناکس کو یکساں طور پر ارزانی ہو گیا ہے اس لیے بعید نہیں کہ آپ بھی بنی اسرائیل کی مانند کرید میں پڑ جائیں۔ لیکن اگر آپ اس تبسمِ ناگہانی کی وجہ پوچھ بیٹھے تو صاحب کی مسکراہٹ اور گہری ہو جائے گی۔ پھر ابھی آپ کی تمنا کا دوسرا قدم اٹھا بھی نہ ہو گا کہ وہ معاً اپنے انتہائی بائیں جانب بیٹھے کسی رفیق کے کان میں تقریباً داخل ہو کر چھنگلی سے آپ کی جانب اشارہ کریں گے اور مدھر سی سرگوشی میں فرمائیں گے:
"ٹُن ہے!”
اس پر اگر آپ بھی ہماری طرح نجیب الطرفین واقع ہوئے ہیں تو لاجواب ہو جانے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ ایسے بہتان پر سرزنش تو درکنار، اپنی صفائی کے لیے بھی مناسب الفاظ نہیں سوجھتے۔ لیکن ابلاغ سے مایوس لوگوں کو مژدہ ہو کہ ایک قادر الکلام شاعر نے یہ کفر بھی توڑ دیا ہے۔ فرماتے ہیں:
اچھا خاصا بیٹھے بیٹھے ٹُن ہو جاتا ہوں
اب میں اکثر میں نہیں رہتا، اُن ہو جاتا ہوں
آپ کو ہدایت ہے کہ ایسے مواقع پر اس شعرِ ناب کا بآوازِ بلند ورد کر کے اختلاجِ قلب اور شماتتِ ہمسایہ سے فوری نجات حاصل کریں۔ لیکن حق یہ ہے کہ اختلاجِ قلب تو ہم نے یونہی دل کے مریضوں کا دل رکھنے کو کہہ دیا ہے ورنہ پریشانی کی ایسی کوئی بات نہیں۔ حشیشین خود بھی سرپھٹول وغیرہ سے دور بھاگتے ہیں۔ آپ کسی چرسی کو برا بھلا کہہ بھی بیٹھیں تو وہ انشاءاللہ پلٹ کر جواب نہیں دے گا۔ زیرِ لب حساب چکتا کر دے تو یہ اس کا اور اس کے خدا کا معاملہ ہے!
اب آئیے بادہ و مینا کی جانب۔ سگریٹ نوش بفضلِ تعالیٰ دخترِ رز کے متوالوں سے بھی واضح امتیاز رکھتے ہیں۔ شراب نوشوں کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ خواہ بارہ برس دلی میں رہ کر بھاڑ ہی جھونکا کیے ہوں مگر پیتے ہی بلبلِ شیراز ہو جاتے ہیں۔ ایسے ایسے پرمغز اشعار سے آپ کی تواضع فرمائیں گے کہ آپ کو سری پائے (اپنے) بھول جائیں گے۔
مے خواروں کا جلال مشہور ہے۔ ایک شادی پہ ہمیں خود بھی اس کی تصدیق کا موقع میسر آیا۔ یادش بخیر، ایک مردِ حُر کو ہم نے دیکھا کہ پیتا جاتا ہے اور چلا چلا کر کہتا جاتا ہے:
یہ کوئی بات ہے بھلا؟ نہیں، یہ کوئی بات ہے بھلا؟
ایک اور مخمور جو اپنے تئیں اس سونامی کے آگے بند باندھے ہوئے تھا، نہات استقلال کے ساتھ ہر بارفقط اتنا عرض کرتا تھا:
نہیں۔ یہ کوئی بات نہیں! ارے نہیں!
اس دوران میں مردِ حُر اگلا گھونٹ لے لیتا تھا۔ وعلیٰ ہٰذا القیاس۔
بعض اکابر علمائے نفسیات نے ہماری طرح لسی کو بھی منجملۂِ منشیات شمار کیا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم بھی لسی کو منشیات کی قبیل سے خیال کرتے ہیں۔ اگر آپ کو اس رائے سے اختلاف ہے تو بلاوجہ ادھم مچانے سے بہتر ہو گا کہ آپ ایک گلاس لسی پی لیں۔ امیدِ واثق ہے کہ آپ کے تمام زریں خیالات خود آپ کی ذات کے لیے بھی لائقِ اعتنا نہیں رہیں گے۔ کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ لسی پی کر انسان تحلیل و تجزیہ کے قابل ہی نہیں رہتا۔ ہماری ترقئِ معکوس کی اس سے بڑی مثال کیا ہو گی کہ تعزیراتِ پاکستان میں لسی پی کر گاڑی چلانے والوں کا کوئی ذکر ہی نہیں۔ حالانکہ بچے بچے کو علم ہے کہ ایسے ڈرائیوروں کو خود اپنی مونچھوں پر چسپاں مکھن تک کا ہوش نہیں ہوتا!
معروف منشیات میں اب بھنگ، ہیروئن اور افیون وغیرہ کا بیان رہ گیا ہے۔ لیکن ان کی نشانیاں ہم بیان نہیں کر سکتے کیونکہ یہ مسکرات ہمارے اکثر دوستوں کے زیرِ استعمال نہیں رہیں۔ جن کے رہی ہیں وہ اکثر ہمارے زیرِ استعمال نہیں رہے۔ اندازے سے رائے قائم جا سکتی ہے لیکن اس سےخواہ مخواہ کسی بیچارے کی دلآزاری ہو جائے تو لعنت ہے۔ لہٰذا براہِ کرم عذر مسموع فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔
ہمارے خیال میں یہ بتانے کی ضرورت باقی نہیں رہ گئی کہ الحمدللہ، ثم الحمدللہ سگریٹ نوشی مندرجہ بالا تمام علائق سے مکمل طور پر منزہ و مبراہے۔ کوئی صاحب مبدءِ فیض سے کوئی علت لے کر پیدا ہو گئے ہوں تو کہہ نہیں سکتے مگر سگریٹ نوشوں پر من حیث المجموع اس قسم کا کوئی رکیک الزام قطعاً عائد نہیں کیا جا سکتا۔
ہائے صاحبو، اب وقت تھا کہ ہم وعدے کے مطابق سگریٹ کے مناقب پر مفصل بحث کا آغاز کرتے۔ مگر انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بقولِ غالبؔ:
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے!
شاید کوئی صاحب فساد کی راہ سے کہیں کہ بھئی باقی تو صرف مدح ہی رہ گئی۔ دشمنوں کے لتے تو سب لینے کا وقت مل گیا ، ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہماری رائے میں اعلائے کلمۃ الحق سے قبل شر کا مکمل استیصال ضروری ہے۔ اگر آپ کو ہمارے مؤقف سے اتفاق نہیں تو ہمیں بھی آپ سے کوئی ہمدردی نہیں۔ آپ کے لیے اتنی ہی سزا کافی ہے کہ آپ یہ مضمون یہاں تک بلاوجہ پڑھ آئے ہیں۔ اب چاہیے کہ آپ زور زور سے کفِ افسوس ملیں اور پھر غالبؔ کی طرح اسے عہدِ تجدیدِ تمنا وغیرہ کا نام دے کر معاشرے میں مثبت سوچ کو پروان چڑھانے میں مصروفِ عمل ہو جائیں۔ گٹ آؤٹ!
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خبیث تھا!
باقی ماندہ قارئین سے ہم استعارۃً دوزانو ہو کر عرض کرتے ہیں کہ آپ ہمارے لیے نہایت محترم ہیں۔ ہم خدانخواستہ ایسے آدمی نہیں کہ جذبات میں آ کر بھلے برے کی تمیز ہی بھول جائیں۔ اس بدمزگی پر شرمندہ ہونے کی آپ کو ہرگز کوئی ضرورت نہیں۔ اس قسم کے کودن اور غبی لوگ بڑے بڑے شہروں میں بھی اپنی چراند پھیلانے سے باز نہیں آتے۔ اور وہ سعدیؔ نے کیا خوب کہا ہے کہ
خرِ عیسیٰ اگر بمکہ رود
چوں بیاید ہنوز خر باشد
یعنی حضرت عیسیٰؑ کا گدھا اگر مکے سے بھی ہو آئے تو گدھے کا گدھے ہی رہتا ہے۔ اب آپ خود سوچ لیجیے کہ ہمارے اس ادنیٰ سے مضمون کی بھلا کیا مجال ہو گی کہ ان کوڑھ مغزوں کو سیدھا کر سکے؟
لیکن وقت اور اوراق کی قلت چونکہ ٹھوس مادی حقائق ہیں لہٰذا ان سے صرفِ نظر اچھی بات نہیں۔ اس لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم سگریٹ نوشی کے تمام تر محاسن کو ایک حد درجہ بلیغ جملے میں بیان کر کے اپنے فرض سے سبکدوش ہو جائیں۔ یعنی وہ جملہ ایسا ہو کہ اس کے بعد کسی اور خوبی کے ہونے یا نہ ہونے کا سوال ہی سرے سے پیدا نہ ہو۔ یعنی سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے تاکہ بوقتِ ضرورت کسی اور موذی کو بھی رسید کی جا سکے۔ آہا، آپ چونکہ نہایت عالی فہم انسان واقع ہوئے ہیں اس لیے شاید تاڑ گئے ہیں۔ جی ہاں، ہم سگریٹ کی بابت بس یہی کہنا چاہتے ہیں کہ
ہائے کمبخت تو نے پی ہی نہیں
گو کہ ہمارا اللہ کی قسم پھانکنے کو بڑی شدت سے جی چاہ رہا ہے لیکن شرفا کی محفل میں ایسی ببانگِ دہل غلطی کی ہم سے توقع عبث ہے۔ ہم تو بس آپ کو یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ آپ محولہ بالا مقولے پہ جوں جوں غور کرتے جائیں گے توں توں اس کی صداقت آشکارا ہوتی چلی جائے گی۔ آزمائش شرط ہے۔ مروتاً ہی سہی!