مواد پر جائیں۔
  • راحیلؔ
  • قرارداد
  • تشہیر
  • ضوابط
  • رابطہ
  • راحیلؔ
  • قرارداد
  • تشہیر
  • ضوابط
  • رابطہ
اردو گاہ
  • زبان

    فرہنگِ آصفیہ

    • لغت
    • تعارف
    • معروضات
    • لغت
    • تعارف
    • معروضات

    املا نامہ

    • املا
    • املا نامہ
    • مقدمہ
    • ابواب
    • املا
    • املا نامہ
    • مقدمہ
    • ابواب

    اردو محاورات

    • تعارف
    • فہرست
    • مقدمہ
    • اہمیت
    • ادب
    • مراجع
    • تعارف
    • فہرست
    • مقدمہ
    • اہمیت
    • ادب
    • مراجع

    اردو عروض

    • تعارف
    • فہرست
    • ابواب
    • مصطلحات
    • تعارف
    • فہرست
    • ابواب
    • مصطلحات
  • کلاسیک

    ادبِ عالیہ

    • تعارف
    • کتب
    • موضوعات
    • مصنفین
    • شمولیت
    • تعارف
    • کتب
    • موضوعات
    • مصنفین
    • شمولیت

    لہجہ

    • تعارف
    • فہرست
    • ادبا
    • اصناف
    • تعارف
    • فہرست
    • ادبا
    • اصناف
  • حکمت

    اقوالِ زریں

    • اقوال
    • فہرست
    • شخصیات
    • زمرے
    • زبان
    • اقوال
    • فہرست
    • شخصیات
    • زمرے
    • زبان

    ضرب الامثال

    • تعارف
    • فہرست
    • زبان
    • زمرہ
    • تعارف
    • فہرست
    • زبان
    • زمرہ
  • نظم و نثر

    اردو شاعری

    • تعارف
    • فہرست
    • اصناف
    • زمرے
    • تعارف
    • فہرست
    • اصناف
    • زمرے

    زار

    • تعارف
    • فہرست
    • پیش لفظ
    • پی ڈی ایف
    • تعارف
    • فہرست
    • پیش لفظ
    • پی ڈی ایف

    اردو نثر

    • تعارف
    • فہرست
    • اصناف
    • زمرے
    • تعارف
    • فہرست
    • اصناف
    • زمرے

    کیفیات

    • کیفیت نامے
    • کیفیت نامے
  • معاصرین

    معاصرین

    • معاصرین
    • فہرست
    • مصنفین
    • اصناف
    • موضوعات
    • لکھیے
    • برأت
    • معاصرین
    • فہرست
    • مصنفین
    • اصناف
    • موضوعات
    • لکھیے
    • برأت

عاشق تو کسی کا نام نہیں!

کہانی

6 مئی 2016ء

میرے ذہن میں عرصے سے یہ خیال جاگزین رہا ہے کہ والہانہ اور مجنونانہ عشق کی صلاحیت بنی آدم کے علاوہ مخلوقات میں صرف کتوں کو ودیعت ہوئی ہے۔ آپ کے لیے شاید یہ بات اچنبھے کا باعث ہو کیونکہ عموماً کتوں کو ہم ان کی وفاداری کے حوالے ہی سے جانتے ہیں۔ یہ حقیقت کم لوگوں کو معلوم ہو گی کہ یہ وفادار جانور بھی کبھی کبھی مالک سے انتہائی بے اعتنائی برت سکتا ہے۔ خاص خاص حالات میں کتے اپنی ماداؤں کی خاطر گھر بار اور پیار کرنے والے مالکوں کو چھوڑ کر مجنونوں کی طرح اجنبی دیسوں کو نکل پڑتے ہیں۔ لڑائیاں لڑتے ہیں، ماریں کھاتے ہیں، چوٹیں سہتے ہیں، زخم برداشت کرتے ہیں، جان تک دے دیتے ہیں لیکن اپنے عشق سے دست بردار نہیں ہوتے۔ دیہات میں رہنے والے یا کتے پالنے کا شوق کرنے والے افراد میری اس بات کی ضرور تائید کریں گے خواہ اس نکتے کی جانب ان کی اپنی توجہ کبھی نہ گئی ہو۔

کتوں کا لڑنا اور کتوں کی طرح لڑنا معلوماتِ عامہ کی باتیں ہیں۔ میں کچھ عرصہ قبل تک اس بات کی توقع نہیں کر سکتا تھا کہ کتے عام طور پر مل بیٹھ کر کھا پی سکتے ہیں اور دوستانہ زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ سدھائے ہوئے کتوں کی بات الگ ہے مگر آوارہ، جنگلی کتوں میں تو اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن پھر ایک واقعہ ایسا ہوا جس نے نہ صرف اس چوپائے بلکہ زندگی کے بارے میں میرے خیالات کو ایک نیا رخ اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔

ہمارے کرائے کے گھر کا صدر دروازہ کچھ اس طرح نصب کیا گیا تھا کہ اس کے نیچے ایک خلا رہ گیا تھا۔ ہمیں اس مکان میں آئے ہوئے چند ہی ہفتے ہوئے ہوں گے کہ بھورے رنگ کا ایک پلا ٹہلتا ٹہلتا اندر چلا آیا۔ بیگم کو پالتو جانوروں کا شوق رہتا ہے۔ انھوں نے زبانِ حال سے اسے خوش آمدید کہا اور روٹی کے چند ٹکڑے اسے ڈال دیے۔ اس کے تیور مستقل قیام کے معلوم ہوتے تھے۔ ایسا ہی ہوا۔ بیگم نے اپنی مغربیت سے مجبور ہو کر اس کا نام میکس تجویز کیا۔ ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ بلکہ اہلِ محلہ کو بھی کوئی اعتراض نہ ہوا۔ وہ سب بھی اسے اس نام سے پکارتے پچکارتے پھرتے تھے۔

تین چار ماہ کے بعد ایک سفید رنگ کا پلا اور وارد ہو گیا۔ ہم میاں بیوی خوش ہو گئے۔ میکس کو البتہ کچھ تحفظات تھے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مفاہمت پیدا ہوتی گئی اور دونوں نے لڑتے بھڑتے اکٹھے جینا سیکھ لیا۔ نووارد کا نام رونی رکھا گیا۔ میکس اور رونی سے اور تو ہمیں کوئی شکوہ نہیں تھا مگر رات کو دونوں بھونک بھونک کر آسمان سر پر اٹھا لیتے تھے۔ گرمیوں کے دنوں میں لوگ صحنوں میں نکل کر سوتے ہیں۔ ایسے حالات میں ان کم بختوں کا غوغا نیندیں حرام کر دیتا تھا۔

محلے والوں نے چند مرتبہ شکایت کی تو ہم نے دونوں کو گھر سے نکال باہر کیا۔ دروازے کا خلا بھرنے کی کوشش بھی کی لیکن سستی آڑے آئی۔ وہ پھر آگئے لیکن ہماری سختی کی وجہ سے حالات بہرحال کچھ بہتر ہو گئے۔

ایک دن ہم میاں بیوی بازار میں گھوم رہے تھے کہ ہمیں ایک ننھا سا، پیارا سا پلا سڑک پر کھیلتا نظر آیا۔ ہم دونوں للچا سے گئے۔ بیگم نے بڑی چالاکی سے رائے دی کہ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم میکس اور رونی دونوں سے قطعِ تعلق کر کے صرف اسے پال لیں۔ شروع دن سے تربیت پر توجہ دیں گے تو تحفظ بھی رہے گا اور شوق بھی پورا ہو جائے گا۔ میں اس قسم کی باتوں پر عموماً بحث نہیں کرتا۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ موصوف کو بازار سے گھر تک کیونکر لایا جائے۔ تھوڑی تکرار کے بعد بیگم خاموش ہو گئیں اور ہم دونوں گھر لوٹ آئے۔

شام کو بیگم کی ایک طربناک چیخ سنائی دی۔ معلوم ہوا کہ بازار والا من موہنا پلا از خود ہمارے ہاں تشریف لے آیا ہے۔ اب تک آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ کتے کو کتا سمجھنا اور پکارنا ہماری روایات کے خلاف ہے۔ لہٰذا نئے مہمان کو وقت ضائع کیے بغیر اس کی دلربائی کے باوصف کینڈی کے نام سے موسوم کر دیا گیا۔

اب صاحب جو کینڈی کی مداراتیں شروع ہوئی ہیں تو ان کی نہ کوئی حد نہ حساب۔ بازار سے تازہ تازہ، نرم نرم ڈبل روٹی خاص طور پر منگا کر دی جا رہی ہے۔ روٹی کو دودھ میں بھگو کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اپنی چائے قربان کر کے دودھ نذر کیا جا رہا ہے۔ مرغی پکا کر اس کی بون لیس بوٹیاں نچھاور کی جا رہی ہیں۔ ہمارے ہاں کتوں کی خاص خوراکیں دستیاب نہیں ورنہ ہمیں یقین ہے کہ گھر کے بجٹ میں موصوف کا حصہ حیطۂِ تحریر میں بھی آ جاتا۔ غرض میکس اور رونی کو در بدر کرنے کے باعث جو قلق اور احساسِ جرم ہمارے دل میں پیدا ہو گیا تھا وہ ہاتھ جوڑ کر رخصت ہو گیا۔

لیکن اس دوران میں رونی اور میکس کے چکر بھی گھر میں لگتے رہے۔ انھیں نکالا جاتا تو موقع پا کر پھر گھس آتے۔ کینڈی سے انھیں ایک تعلقِ خاطر پیدا ہو گیا تھا۔اس کے ساتھ کھیلتے کودتے۔ اسے بھاگنا دوڑنا سکھاتے۔ غرا کر اس پر جھپٹتے۔ ہمارا دل اچھل کر حلق میں آ جاتا۔ ادھر یہ معصوم اپنی بساط کے مطابق جوابی کارروائیاں کرتا۔ ہم انھیں مار بھگاتے۔ یہ ان کے پیچھے دوڑتا۔ ہم ان کو گھر نہ آنے دیتے۔ یہ ان کے ساتھ باہر نکل جاتا۔

پھر ایک دن ہم نے دیکھا کہ دونوں کینڈی کو چھت سے اتار کر لا رہے ہیں۔ میکس اور رونی اکثر سیڑھیاں چڑھ کر گھر کی چھت پر جا بیٹھتے تھے۔ خدا جانے کینڈی کیسے ان کے ساتھ چلا گیا ہو گا۔ مگر اب وہ اسے ایسی احتیاط سے نیچے لا رہے تھے کہ ہم حیرت زدہ رہ گئے۔ رونی الٹے قدموں سیڑھیاں اتر رہا تھا۔ اس کے پیچھے کینڈی تھا اور سب سے اوپر میکس۔ میکس ٹہوکے دے دے کر سہمے ہوئے کینڈی کو نیچے کی جانب دھیرے دھیرے دھکیل رہا تھا۔ ادھر رونی چوکنا تھا کہ بالک کہیں لڑھک کے سیدھا ہی نیچے نہ جا رہے۔ سو وہ منہ سے اور اگلی ٹانگوں سے اسے سنبھالتا اور گرنے سے بچاتا آ رہا تھا۔ ہم کھڑے دیکھتے رہے اور کوئی دو چار منٹوں میں کینڈی بخیر و عافیت نیچے پہنچ کر معمول کی مصروفیات میں مشغول ہو گیا۔

ہمیں گمان ہوا کہ اگر ہم نے مناسب اقدامات نہ کیے تو جلد یہ دونوں بدمعاش کینڈی کو اپنی عاداتِ بد میں شریک کر لیں گے۔ آج پاؤ بھر کے پلے کو چھت پہ چڑھنا سکھا رہے ہیں، کل کلاں اس کے عنفوانِ شباب میں کیسے کیسے سبق نہ دیں گے؟ ہم کینڈی جیسے من بھاونے کتے کو کسی طور پر محلے والوں سے گالیاں پڑتی نہیں دیکھ سکتے تھے۔ لہٰذا فیصلہ ہوا کہ رونی اور میکس کا گھر میں داخلہ سختی سے بند کر دیا جائے اور کینڈی کا نام بھی گھر کی ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیا جائے۔ نہ رہے گا بانس، نہ بجے گی بانسری!

اب ایک نیا اعجازِ محبت سامنے آیا۔ ہم کینڈی کو روٹی ڈالتے ہیں تو موصوف منہ میں تھام کر خراماں خراماں دروازے کی جانب چل دیتے ہیں۔ لاکھ بلاتے ہیں، پچکارتے ہیں، دھمکاتے ہیں، نہیں رکتے۔ تحقیق پر معلوم ہوا کہ گھر سے بے دخل کیے گئے دونوں پردہ نشینان باہر گھونگٹ نکال کر بیٹھتے ہیں۔ اور ہمارے لاڈلے کینڈی میاں ان کے ساتھ مل بیٹھ کر انسانوں کی طرح کھانے کے قائل ہیں۔ اب کیا کریں؟ ہمارا کتا ہمی کو بھاؤ؟ یعنی ہم جسے کھلانا چاہیں وہ نہ کھائے اور جس مردود کو لات کھلانی بھی گوارا نہ کریں وہ روٹیاں اور بوٹیاں کھائے؟

پنجابی کی ایک مثل ہے۔ گاں دا دل وچھے تے تے وچھے دا دل جھاڑی تے۔ یعنی گائے بچھڑے پر فریفتہ ہے اور بچھڑا جھاڑی پر۔ کچھ ایسی ہی صورتِ حال ہو گئی اور ہم کینڈی کی قوم پرستی سے عاجز آ گئے تو ناچار کچھ چھوٹ دے دی کہ تینوں کتے مل بیٹھ کر کھا لیا کریں۔ مگر حالات پھر سے بگڑنے لگے۔ دھماچوکڑی اور شوروغل عروج کو پہنچ گیا۔

ہم نے میکس اور رونی سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے عزم کا اعادہ فرمایا اور کینڈی کے گلے میں ایک رسی ڈال کر اس کے باہر نکلنے کا ٹنٹا ہی نکال دیا۔ بیگم بھی تنگ آ چکی تھیں۔ انھوں نے بھی صحن میں ایک ڈنڈا رکھ دیا تاکہ دونوں کتوں پر بوقتِ ضرورت ضرب ہائے عضب وارد کی جا سکیں اور عام طور پر بھی رعب قائم رہے۔

اس انتظام و انصرام کا نتیجہ یہ ہوا کہ کینڈی نے کھانا پینا ترک کر دیا۔ ہم کسی غلط فہمی کا شکار تھے۔ یہ خیال کرتے رہے کہ شاید بیمار ہو گیا ہے۔ ایک دو دفعہ تو میکس اور رونی کو بھی کوسا کہ ضرور انھوں نے کوئی موذی جراثیم منتقل کیے ہوں گے۔ مگر یہ مرض کچھ اور تھا۔ اس سے پہلے کہ ہم معاملہ سمجھتے، دو تین دنوں میں کینڈی مر گیا۔

دیکھا اس بیمارئَ دل نے آخر کام تمام کیا

شام کا وقت تھا۔ کینڈی کی ننھی سی لاش سیڑھیوں کے نیچے پڑی ہوئی تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ صبح کے وقت جمعدار سے کہہ کر اسے اٹھوا دوں گا۔ بیگم ہانپتی کانپتی ہوئی آئیں اور بتایا کہ رونی گھر میں گھس آیا ہے۔ میں غضب ناک ہو کر اٹھا۔ رونی سیڑھیوں کے نیچے موجود تھا۔ میں نے جاتے ہی بے دریغ اسے چار پانچ ڈنڈے رسید کیے۔ وہ عموماً مجھے دیکھتے ہی پتلی گلی سے نکل لیا کرتا تھا مگر اس دن وہ اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں۔ الٹا اس نے دانت نکوس کر میری طرف دیکھا اور غرایا۔ میں لرز کر رہ گیا۔ وہ میرے گھر میں پلا تھا۔ میں اس کا مالک تھا۔ اس نے کبھی مجھ پر غرانے کی جرات نہیں کی تھی۔ اسے کیا ہو گیا تھا؟ میرا دماغ سن ہو گیا اور ہاتھ کمزور پڑ گئے۔ میں نے ڈنڈا پھینک دیا اور اپنے کمرے میں چلا آیا۔

کچھ ہی دیر میں بیگم نے بتایا کہ رونی رو رہا ہے۔ مجھے یقین نہیں آیا۔ میں دوڑ کر سیڑھیوں کے پاس پہنچا۔ رونی کا سر کینڈی کی لاش پر ایسے دھرا ہوا تھا جیسے ہم کسی ہم جلیس کے زانو پر سر رکھ کر لیٹتے ہیں۔ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے چھلکی پڑتی تھیں۔ حلق سے ایسی آوازیں نکل رہی تھیں جن کے لیے رونے سے زیادہ مناسب لفظ کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ میرا دل کٹ کر رہ گیا۔ ہم دونوں میاں بیوی وہیں بیٹھ رہے اور رونی کو دیکھتے رہے۔ وہ روتا رہا۔ کچھ دیر کی تعزیت کے بعد میرے لیے مزید اسے دیکھنا ممکن نہ رہا تو میں نے بیگم کا ہاتھ تھاما اور ہم دونوں وہاں سے اٹھ آئے۔

اگلی صبح کینڈی کی لاش جمعدار اٹھا لے گیا۔ رونی کو ہم نے پھر نہیں دیکھا۔

تین چار روز کے بعد محلے کے بچوں نے آ کر بتایا کہ ان کے گھروں میں بدبو آ رہی ہے۔ انھیں شبہ تھا کہ ہماری چھت پر کتوں نے کوئی شکار چھپا رکھا ہے۔ ہم نے بچوں کو بتایا کہ اب اس گھر میں کتے نہیں رہتے۔ ان کا اصرار دیکھ کر ہم نے اجازت دے دی کہ وہ چھت پر جا کر تسلی کر سکتے ہیں۔

بچے برے برے منہ بناتے ہوئے واپس آئے۔ بتایا کہ وہاں ایک کتا مرا پڑا ہے۔

وہ رونی تھا!

راحیلؔ فاروق

پنجاب (پاکستان) سے تعلق رکھنے والے اردو نثر نگار۔

Prevپچھلی نگارشہیر نہ آکھو کوئی
اگلی نگارشنقدِ روانےNext

تبصرہ کیجیے

اظہارِ خیال

4 خیالات ”عاشق تو کسی کا نام نہیں!“ پر

  1. Muhammad Ahmed
    7 مئی 2016ء بوقت 09:57

    بہت خوب۔۔۔!

    بہت سے انکشافات میرے لئے نئے ہیں۔

    میرا تو یہ حال کہ سڑک کے ایک طرف کتا ہو تو ہم دوسری طرف چلتے ہیں۔ 🙂

    آپ کی تحریر بڑی دل نشین ہوا کرتی ہے۔

    جواب دیں
    1. راحیل فاروق
      8 مئی 2016ء بوقت 12:54

      شکریہ، احمد بھائی۔
      کتوں سے مجھے بھی اتنا ہی ڈر لگتا ہے۔ آپ رستہ چھوڑتے ہیں، ہمیں شبہ ہے ہم کسی دن دنیا چھوڑ جائیں گے ان کی وجہ سے۔
      شاید اسی خوف پہ قابو پانے کے لیے کتے پالنے چاہے تھے! 🙂

      جواب دیں
  2. آوارہ فکر
    8 مئی 2016ء بوقت 09:44

    بہت عمدہ اور حساس تحریر ہے راحیل بھائی۔کتوں اور وفا کی اس داستان کو پڑھ کر احمد فراز صاحب کا شعر ذہن میں آ رہا ہے، اگرچہ کہ کافی غیرمتعلق ہے اس سب سے
    ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی
    یہ خزانے تجھے، ممکن ہے، خرابوں‌ میں ملیں

    جواب دیں
    1. راحیل فاروق
      8 مئی 2016ء بوقت 12:56

      پیارے بھائی، اتنا پیارا شعر!
      اسے غیر متعلق کہنے کی جرات تو کوئی کندۂِ ناتراش ہی کرے گا جسے تحریروں کو بین السطور پڑھنا نہیں آتا۔

      جواب دیں

آپ کا کیا خیال ہے؟ جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل کا پتا شائع نہیں کیا جائے گا۔ تبصرہ ارسال کرنے کے لیے * کے نشان والے خانے پر کرنا ضروری ہے۔

اردو نثر

راحیلؔ فاروق کی نثری نگارشات۔ شعری، ادبی، فکری، معاشرتی اور مذہبی موضوعات پر انشائیے، مضامین اور شذرات۔

آپ کے لیے

تعصب

18 مئی 2022ء

حاضر جوابیاں

25 فروری 2017ء

انسانی اختیار کی بحث میں

17 مئی 2021ء

بابرؔ بہ عیش کوش

7 اکتوبر 2013ء

روایت و امانت

10 ستمبر 2018ء

تازہ ترین

روٹی اور پڑھائی

10 اگست 2025ء

جا ری عقل

29 جون 2024ء

الوداع، اماں!

4 مئی 2024ء

غلام یاسین فوت ہو گیا

27 دسمبر 2023ء

شاعرانہ مزاج

18 دسمبر 2023ء
ہمارا ساتھ دیجیے

اردو گاہ کے مندرجات لفظاً یا معناً اکثر کتب، جرائد، مقالات اور مضامین وغیرہ میں بلاحوالہ نقل کیے جاتے ہیں۔ اگر آپ کسی مراسلے کی اصلیت و اولیت کی بابت تردد کا شکار ہیں تو براہِ کرم اس کی تاریخِ اشاعت ملاحظہ فرمائیے۔ توثیق کے لیے web.archive.org سے بھی رجوع لایا جا سکتا ہے۔

© 2022 - جملہ حقوق محفوظ ہیں۔