تہجی حرفوں کو جوڑ کر لفظ بنانے کو کہتے ہیں۔ حروفِ تہجی سے مراد حرفوں کا وہ مجوعہ ہے جس سے کسی زبان کے الفاظ بنتے ہیں۔ مثلاٰ لفظ دیکھیے تعلیم۔ اس کے ہجے کریں تو معلوم ہو گا یہ ذیل کے حروف کو ملا کر لکھا گیا ہے:
ت ع ل ی م
گویا تہجی زبان سے ادا ہونے والی آوازوں کا نقشہ کاغذ پر کھینچ دینے کا نام ہے۔ یہ نقشہ حروف کی مدد سے کھینچا جاتا ہے جو بعض زبانوں میں ہمیشہ الگ الگ لکھے جاتے ہیں جیسے انگریزی میں۔ اور بعض میں ملا کر ان کی مختلف صورتیں بنائی جاتی ہیں جیسے اردو میں۔ یعنی لفظ مختلف ہی کو دیکھیے۔ اس میں م پورا نہیں لکھا گیا۔ خ کی بھی ایک چھوٹی سی صورت موجود ہے۔ ل بھی مکمل نہیں۔ ف البتہ مکمل ہے مگر پچھلے حرف سے جڑا ہوا ہے۔ اس طرح لفظ مختلف کی ایک الگ شکل تیار ہو گئی ہے جو اردو میں کسی اور لفظ کی نہیں ہو سکتی۔ اس کے مقابل انگریزی کو دیکھیے تو اس میں مختلف کو different کہتے ہیں۔ اس میں تمام حروفِ تہجی الگ الگ لکھے گئے ہیں اور انھوں نے باہمدگر ترکیب پا کر کوئی منفرد صورت اختیار نہیں کی۔
اردو کے حروفِ تہجی فارسی سے ماخوذ ہیں۔ فارسی کے عربی سے۔ اور عربی کے عبرانی سے۔ عبرانی کے خدا جانے کہاں سے ہیں مگر اس تحقیق سے ہمیں مطلب نہیں۔ عبرانی میں حروفِ تہجی کی تعداد بائیس ہے۔ یہ انگریزی کی طرح الگ الگ لکھے جاتے ہیں گو ان میں کچھ حروف کی مختصر صورتیں بھی رائج ہیں۔ تاہم انگریزی کے برعکس عبرانی دائیں سے بائیں لکھی جاتی ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے ہم اردو لکھتے ہیں۔ آپ نے ابجد پڑھی ہو گی۔ یہ عربی حروفِ تہجی کی قدیمی ترتیب ہے جو الفاظ کی صورت میں کچھ یوں لکھی جاتی ہے:
- ابجد
- ہوز
- حطی
- کلمن
- سعفص
- قرشت
- ثخذ
- ضظغ
اس میں ا اور ب کے بعد ت نہیں بلکہ ج آتا ہے۔ پھر د۔ پھر ہ وغیرہ۔ اب اس میں قرشت تک جو حروف آتے ہیں وہ دراصل عبرانی حروفِ تہجی ہیں۔ عبرانی میں انھیں آلف، بیت، گیمل، دالت وغیرہ کہتے ہیں۔ یونانی زبان کے ایلفا، بیٹا، گیما، ڈیلٹا وغیرہ کی اصل بھی یہی ہے۔ بعد میں یورپی زبانوں کا لاطینی رسم الخط بھی جو انگریزی وغیرہ میں ہمیں نظر آتا ہے اسی سے متفرع ہوا۔ بہرحال، مدعا یہ ہے کہ قرشت کی ت تک جو حروف ہیں وہ کل بائیس ہیں اور عبرانی انھی کی مدد سے لکھی جاتی ہے۔
عربی والوں نے عبرانی ابجد میں ثخذ اور ضطغ کی صورت میں چھ حروف کا اضافہ کر کے اپنی ابجد تشکیل دی۔ یعنی عبرانی حروف ہی میں ث، خ، ذ، ض، ظ اور غ بڑھا دیے اور اس مجموعے سے اپنی زبان لکھنے کا کام لینے لگے۔ اس اضافے کی ضرورت یوں پیش آئی ہو گی کہ ث، ض وغیرہ کی آوازیں اہلِ عرب کے ہاں تو تھیں مگر عبرانی میں نہ تھیں۔ اب ان آوازوں کو کیسے لکھتے؟ ناچار کچھ حروف اپنی طرف سے بنا کر ڈالے اور اپنے الفاظ کو جیسا بولتے تھے ویسا لکھنے کے قابل ہو گئے۔
عربوں نے ظہورِ اسلام کے بعد ایران فتح کیا تو یہ رسم الخط ایران چلا آیا۔ ایرانیوں نے فارسی زبان عربی حروف میں لکھنی شروع کر دی۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ فارسی والوں کے ہاں پ، چ، ژ اور گ کی آوازیں عام تھیں جو عربی والوں میں نہیں ملتی تھیں۔ لہٰذا عربی تہجی میں بھی ان کا وجود نہ تھا۔ اب اہلِ ایران نے یہ چار حروف مزید شامل کیے اور فارسی رسم الخط بتیس حروف کا مجموعہ بن گیا۔ بائیس اصل عبرانی، چھ عربی والوں کے اضافہ کردہ اور چار خود فارسی والوں کے بڑھائے ہوئے۔
مگر ٹھہریے۔ یہاں ایک مسئلہ اور بھی تھا۔ اور یہ بعد میں زیادہ سنگین بھی ثابت ہونے والا تھا کیونکہ اس کا کوئی حل تلاش نہیں کیا گیا تھا۔ وہ مسئلہ یہ تھا کہ بتیس حروفِ تہجی کے اس مجموعے میں کچھ آوازیں ایسی بھی تھیں جو ایران والوں میں رائج نہیں تھیں۔ وہ خواہ مخواہ عربی سے محض ورثے کے طور پر منتقل ہو گئی تھیں۔ مثلاً جو ث عربی والوں نے عبرانی میں بڑھایا تھا وہ عربی والے ہی بولتے تھے۔ نہ عبرانیوں میں یہ آواز تھی نہ ایرانیوں میں۔ یا وہ ق جو عبرانی سے چلا آتا تھا وہ عبرانی اور عرب تو بولتے تھے مگر ایرانی اس آواز کا غ سے فرق نہیں کرتے تھے۔ مذہبی لوگ چونکہ عربی پڑھتے تھے اس لیے وہ تو تجوید کا تکلف کر لیتے ہوں گے مگر ایران کے عوام کے ہاں اس قسم کے حروف بےکار تھے۔ انھیں نکال دینا چاہیے تھا۔ جس طرح ضرورت کے موافق حروف اضافہ کر لیے گئے تھے کیا ہی اچھا ہوتا کہ اسی طرح جن حروف کی ضرورت نہ تھی انھیں اپنی ابجد سے نکال بھی دیا جاتا۔ مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔
شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ اہلِ ایران مفتوح تھے۔ پھر انھوں نے فاتحین کا مذہب یعنی اسلام بھی قبول کر لیا تھا۔ اسلام کے الہامی اور تاریخی متون عربی زبان میں تھے جن میں یہ سب حروف کام دیتے تھے۔ ایران کے علما کے پاس ان سے شناسائی بہم پہنچانے کے سوا چارہ نہ تھا۔ عوام کی بول چال میں گو یہ آوازیں شامل نہ تھیں مگر عوام کون سا لکھتے پڑھتے تھے؟ پھر فارسی لغت میں عربی الفاظ کا ایک بڑا ذخیرہ بھی شامل ہو گیا تھا۔ ان کا املا بدل کر فارسی آوازوں کے مطابق ڈھال دینا عرب آقاؤں کو جو مذہبی اعتبار سے بھی مولا تھے، شاید گستاخی معلوم ہوتا۔ مثلاً قاعدہ ایک عربی لفظ ہے۔ اب اس کی ق کو ایرانی غ کی طرح بولتے ہیں اور ع کو ا کی طرح۔ اگر فارسی تہجی سے ان عربی آوازوں کو نکال دیا جاتا جو ایرانیوں میں رائج نہیں تھیں تو یہ لفظ یوں لکھا جانا چاہیے تھا۔ غائدہ۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک خاصی پیچیدہ صورتِ حال کو جنم دیتا جس سے نمٹنے کا تکلف ایرانیوں نے نہیں کیا۔ انھوں نے خاموشی سے ق، ع، ث، ظ جیسے حروف کو قبول کرنے ہی میں عافیت سمجھی۔
پھر مسلمانوں نے ہندوستان پر یورش کی۔ مقامی لوگوں سے ان کے صدیوں پر محیط ارتباط و اختلاط نے اس زبان کو جنم دیا جسے ہم آج اردو کہتے ہیں۔ اس زبان کا دل ہندوستانی ہے مگر دماغ ایرانی ہے۔ جیسے ایرانیوں نے اپنی زبان کے قواعد عربی کے اصول کے مطابق مرتب کیے اسی طرح اہلِ اردو نے بھی اپنی بولی پر فارسی گوؤں کو اختیار دے دیا۔ ہمارا رسم الخط بھی ہمارے باپ دادا کی بجائے ہمارے آقاؤں نے طے فرمایا۔ یہ وہی ابجد ہے جو عبرانی سے چلی، عربی میں آئی، فارسی تک پہنچی اور پھر اردو کے لاگو ہوئی۔
ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ فارسی تک پہنچتے پہنچتے حروفِ تہجی کی تعداد بتیس ہو گئی تھی۔ اردو لکھنے کا معاملہ آیا تو نئی آوازوں کا ایک طومار درپیش ہوا۔ ٹ، ڈ، ڑ جیسی آوازیں تو تھیں تو سو تھیں، کم و بیش ہر حرف کی ایک الگ بھاری آواز کا ٹنٹا بھی نکل آیا۔ یعنی ب کے ساتھ بھ، پ کے ساتھ پھ، ت کے ساتھ تھ وغیرہ۔ مقامی طور پر رائج دیوناگری رسم الخط میں یہ تمام آوازیں پہلے سے موجود تھیں۔ کچھ آوازوں جیسا کہ غ، ز اور خ وغیرہ کا اضافہ بھی بعد میں کر لیا گیا۔ تہجی کا دیوناگری نظام اہلِ اردو کے لیے بہترین ثابت ہو سکتا تھا مگر۔۔۔ مگر ہندوستانی مسلمان بھی ایرانیوں ہی کی طرح نہ صرف مفتوح رہے تھے بلکہ اپنے آقاؤں سے مذہبی نسبت بھی رکھتے تھے۔ لہٰذا اردو ہندی تنازع کے بعد اہلِ اردو نے باقاعدہ طور پر اور ببانگِ دہل فارسی رسم الخط کو اپنا لیا۔
مسئلہ یہ ہے کہ دیوناگری رسم الخط میں تین یا چار آوازوں کے اضافے کے ساتھ پوری اردو لکھی جا سکتی تھی اور لکھی جاتی ہے۔ مگر فارسی رسم الخط میں ہمیں تین حروف تو ٹ، ڈ اور ڑ ڈالنے پڑے۔ پھر ان کے بعد بھ، پھ، تھ وغیرہ کا وہ طوفان امڈا جو تھمنے میں نہ آیا۔ اردو کے اکثر لکھاری آج بھی تمھیں، انھیں، چولھا، دلھن، وغیرہ کو تمہیں، انہیں، چولہا، دلہن لکھتے ہیں اور ان کا فرق نہیں جانتے۔ اسی الجھاؤ پر بس نہیں۔ عربی کا وہ بےکار ورثہ بھی جس کا بوجھ پہلے فارسی والے اٹھاتے آئے تھے، ہمارے کاندھوں پر مفت منتقل ہو گیا۔ ح اور ہ ہمارے ہاں ایک ہی طرح بولے جاتے ہیں۔ ع اور ا میں اردو فرق نہیں کرتی۔ ظ، ز، ذ اور ض چار حروف ایک ہی آواز کے لیے ہیں۔ ث، س اور ص کا بھی یہی معاملہ ہے۔ ط اور ت کا بھی یہی حال ہے۔ ق اور ک کا بھی یہی قصہ ہے۔ لہٰذا توتا کو طوطا لکھنے یا نہ لکھنے کی بحثیں چھیڑ کر اردو کے محققین اپنا پیٹ پالتے ہیں۔ یہ کہنے کی ضروت نہیں کہ دیوناگری رسم الخط چونکہ مقامی تھا اس لیے اس میں یہ قباحتیں نہ تھیں۔
اردو کے درآمد شدہ حروفِ تہجی کا اب یہ حال ہے کہ صحیح تعداد پر بھی جھگڑے ہوتے ہیں۔ بھ، پھ جیسی ثقیل آوازیں گو کہ ہماری زبان کا ایک جزوِ لاینفک ہیں مگر لطیفہ ملاحظہ ہو کہ ہم انھیں اپنے حروفِ تہجی میں شمار نہیں کرتے۔ ح، ق، ط جیسی آوازیں جنھیں شمار کرتے ہیں وہ بولتے نہیں۔ باعث اس فساد کا صرف سیاسی اور مذہبی اقتدار کی مصلحتیں ہیں۔
ایک وجہ اور بھی ہے۔ اور یہ شاید بڑی وجہ ہے۔ توریت میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی نسبت لکھا ہے:
اور خُداوند کے فرِشتہ نے آسمان سے دوبارہ ابرہام کو پُکارا اور کہا کہ خُداوند فرماتا ہے چُونکہ تُو نے یہ کام کِیا کہ اپنے بیٹے کو بھی جو تیرا اِکلوتا ہے دریغ نہ رکھّا اِس لِئے مَیں نے بھی اپنی ذات کی قَسم کھائی ہے کہ مَیں تُجھے برکت پر برکت دُوں گا اور تیری نسل کو بڑھاتے بڑھاتے آسمان کے تاروں اور سمُندر کے کنارے کی ریت کی مانِند کر دُوں گا اور تیری اَولاد اپنے دُشمنوں کے پھاٹک کی مالِک ہو گی اور تیری نسل کے وسِیلہ سے زمِین کی سب قَومیں برکت پائیں گی کیونکہ تُو نے میری بات مانی۔ (پیدائش – 22:15-19)
یہ وہی ابراہیم علیہ السلام ہیں جن کا حوالہ دے کر ہم ہر نماز میں اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ محمد و آلِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ویسی ہی سلامتی بھیج اور ویسی ہی برکت دے جیسی ابراہیم و آلِ ابراہیم علیہ السلام کو بخشی۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے تھے۔ مگر مجھے یہ بات زیادہ دلچسپ معلوم ہوتی ہے کہ انھی ابراہیم علیہ السلام کی آل وہ عبرانی تھے جن کی "برکت” دیگر صورتوں کے علاوہ رسم الخط کی شکل میں بھی برصغیر کے باشندوں تک پہنچی ہے اور ہم نے بڑے فخر سے اپنی اصل شناخت جھٹلا کر اسے قبول کیا ہے۔