اصطلاحات سے عام طور پر لوگوں کی جان جاتی ہے اور کسی علم یا ہنر کی تحصیل کے دوران میں انھیں سمجھنا اور یاد رکھنا دشوار ترین کام معلوم ہوتا ہے۔ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ لوگ اصطلاحات کی غرض و غایت سے واقف نہیں ہوتے۔ دوم یہ کہ مکتبی قسم کے علما بعض اوقات رعب اندازی کے لیے بھی ایسی اصطلاحیں گھڑتے رہتے ہیں جن کی کوئی غرض و غایت ہوتی ہی نہیں۔ یہ دونوں مجبوریاں طلبہ کے لیے بڑی کٹھن ثابت ہوتی ہیں اور وہ یا تو علم ہی سے متنفر ہو جاتے ہیں یا پھر اصطلاحات کو جبراً رٹنے کی کوشش میں اپنی صلاحیتوں اور ان کے امکانات کو فنا کر ڈالتے ہیں۔
بغیر کسی محرک یا غایت کے انسان کچھ نہیں کرتا۔ اگر ہم پر کوئی داخلی یا خارجی جبر نہ ہو تو ہم محض تنکا توڑ کر دہرا کرنے کی تکلیف بھی گوارا نہ کریں۔ خواہ ترنگ کے رنگ میں ہو خواہ ٹھیس کے بھیس میں مگر یہ ضرورت ہی کا احساس ہے جو انسان کی توجہ کسی کام پر مبذول کرواتا ہے۔ لہٰذا یہ عین فطری ہے کہ لوگ اصطلاحات کی ضرورت معلوم کیے بغیر انھیں یاد کرنے اور رکھنے میں دقت محسوس کریں۔ ابتدائی سطحوں کے متعلمین جب اصطلاحوں کو رٹنے پر مجبور کیے جاتے ہیں تب ان کے فرشتوں کو بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ان کا مقصد کیا ہے۔ مثلاً فنِ شاعری کے نوآموز اکثر نہیں جانتے کہ زحافات کس کام آتے ہیں۔ نتیجتاً انھیں زحافات کے نام مستحضر کروانا گدھے پر بوجھ لادنے کے مترادف ثابت ہوتا ہے۔ جتنا لد سکا لد گیا۔ پھر گدھا زمین بوس ہو گیا یا بگٹٹ بھاگ نکلا۔
سمجھنا چاہیے کہ علمی و فنی اصطلاحات خواہ مخواہ پیدا نہیں ہو جاتیں بلکہ درحقیقت ایک ناگزیر ضرورت انھیں وجود میں لاتی ہے۔ وہ ضرورت ایسی ہے کہ اگر پوری نہ ہو تو علم حاصل کرنا انسان کے لیے یکسر ناممکن ہو جائے۔ فرض کیجیے آپ اردو کے ایک بہت بڑے شاعر کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ ان کے شعر سنا رہے ہیں، محاسن گنوا رہے ہیں، عظمت کے گن گا رہے ہیں، انفرادیت کا ڈنکا پیٹ رہے ہیں۔ مگر ان شاعرِ اعظم کا کوئی نام نہیں ہے۔ جی ہاں۔ کوئی نام ہی نہیں ہے۔ تو یہ کس قسم کی صورتِ حال ہو گی؟ پھر اگر کوئی آپ سے کہے کہ نہیں حضور۔ ایک اور شاعر ہیں جو ان سے بھی اچھے ہیں۔ پھر ان کے قصیدے پڑھے جائیں۔ اور نام ان کا بھی کوئی نہ ہو۔ بات کہاں تک پہنچے گی؟ فیصلہ کیا ہو گا؟ اچھا کیونکر شناخت ہو گا اور برے کی پہچان کس طرح کروائی جا سکے گی؟
اصطلاحات بھی نام ہیں۔ علمی تصورات کے نام۔ اگر یہ نام نہ رکھے جائیں تو ایک تصور کو دوسرے سے الگ کرنا محال ہو جائے۔ آپ بات ایک شے کی کریں سمجھنے والا دوسری سمجھے۔ اس لحاظ سے اصطلاحات پتے کی طرح ہیں۔ جیسے مکان نمبر، گلی نمبر وغیرہ معلوم ہو تو آپ سیدھے منزل پر جا پہنچتے ہیں ویسے ہی اصطلاح کا معنی و مفہوم معلوم ہو تو سننے والے کا ذہن فوری طور پر بات کرنے والے کے مقصد تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ پتا ہی پتا نہ ہو تو پھر کیا پتا؟
زیر زبر پیش تینوں کو حرکت کہا جاتا ہے۔ جہاں کوئی حرکت نہ ہو اس حالت کو سکون کہتے ہیں۔ جس حرف پر حرکت ہو اسے متحرک کہتے ہیں۔ جس حرف پر کوئی حرکت نہ ہو اسے ساکن کہتے ہیں۔ یہ سب اصطلاحات ہیں۔ اور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ سب ایک ایک جداگانہ منزل کا پتا دیتی ہیں۔ ساکن سے جو مراد ہے وہ سکون سے نہیں۔ حرکت کا جو مطلب ہے وہ متحرک کا نہیں۔ یہ سب الفاظ الگ الگ اسی لیے گھڑے گئے ہیں کہ بات کرتے ہوئے ٹامک ٹوئیاں مارنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ بلکہ جہاں اہلِ علم کی گفتگو ہو وہاں ایک کہے اور دوسرا معاً سمجھ لے۔ حرکت بولے تو زیر زبر یا پیش پر توجہ جائے۔ متحرک کہے تو اس حرف کی جانب ذہن منتقل ہو جس پر زیر زبر یا پیش پائی جاتی ہے۔ یہ نہ ہو کہ پہروں سر پٹکتے رہیں کہ نہیں بھئی وہ نہیں وہ۔ اچھا؟ وہ۔ نہیں نہیں۔ ارے وہ۔ اوہو۔
انسانوں کے نام نہ ہوں تو شناخت ختم ہو جائے۔ سب جانور ہو جائیں۔ چیزوں کے نام نہ ہوں تو علم اٹھ جائے۔ اندھیرا ہو جائے۔ اصطلاحات یہی چیز ہیں۔ جو لوگ ان سے خار کھاتے ہیں اس لیے کھاتے ہیں کہ یا تو ان کی ضرورت رکھتے نہیں یا ضرورت سے واقف نہیں۔ جو ضرورت نہیں رکھتے وہ پست اور ابتدائی درجوں کے علم والے ہیں جن کا کام عام اور سادہ لفظیات سے بخوبی چل جاتا ہے۔ انھیں نہ علم کے اعلیٰ تر تصورات اور دقائق کا فہم درکار ہوتا ہے نہ متعلقہ اصطلاحات سے سروکار۔ دوسرا طبقہ جو ضرورت سے واقف نہیں وہ ہے جو خواہ کسی بھی علمی درجے پر ہو سمجھنے کی بجائے رٹنے کا طبعی رجحان رکھتا ہے۔ یہ طبقہ ہر شعبۂِ علم میں اکثریت کا حامل ہے۔ لہٰذا اصطلاحات کی دقت کا رونا ان کے ہاں ہمیشہ رویا جاتا رہا ہے اور رہے گا۔
اصطلاحات سے لوگوں کی بیزاری کا دوسرا سبب جس کا ہم نے ذکر کیا ہے یہ ہے کہ بعض کرم ہائے کتابی انھی کے بل بوتے پر اپنے علم کا تمام تر سکہ جماتے ہیں۔ اس صورت میں یا تو ازکار رفتہ اور متروک قسم کی مغلق لفاظی کو دھڑا دھڑ علم کے نام پر اگلا جاتا ہے یا پھر خود سیدھے سادے الفاظ کو تکنیکی اصطلاحات قرار دے کر موشگافیاں کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اقبالؔ نے ایک شعر میں اس صورت کا نقشہ خوب کھینچا ہے:
قلندر جز دو حرفِ لا الہٰ کچھ بھی نہیں رکھتا
فقیہِ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا
حقیقت یہ ہے کہ اگر علم کا ابلاغ مقصود نہ ہو تو اصطلاحات کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔ آپ شعر کہنا جانتے ہیں اور کسی اور شخص سے اس بارے میں بحث یا تعلیم کی حاجت نہیں رکھتے تو ایک بھی اصطلاح کا علم آپ کے لیے لازم نہیں۔ جیسے نام معاشرتی سطح پر پکارے جانے کے لیے ہوتے ہیں اور فرد کے لیے ان کی کوئی ذاتی حیثیت نہیں ہوتی اسی طرح اصطلاحات بھی مجلسی اور گروہی ضروریات کے تحت درکار ہوتی ہیں۔ گفتگو یا تعلیم و تدریس کی ضرورت نہیں تو کسی اصطلاح کی بھی ضرورت نہیں۔
پس طالبِ علم کو چاہیے کہ جب بھی کسی نئی اصطلاح سے سابقہ پڑے تو اس کی غرض و غایت معلوم کرنے کی کوشش کرے۔ اگر وہ اصطلاح فی الواقع کسی ایسی چیز یا تصور کا نام ہے جس کے لیے کوئی اور متبادل نام موجود نہیں تو اسے یاد رکھنا اور اس کے بارے میں بات کرنا اس طرح سمجھ لینے کے بعد نہایت آسان ہو جائے گا۔ اور اگر وہ خواہ مخواہ رعب اندازی کے لیے اس پر ٹھونس دی گئی ہے تو بھی کم از کم یہ طے ہو جائے گا کہ اس کی یا ضرورت ہی نہیں یا پھر متعلقہ تصور کے لیے پہلے سے کوئی مشہور نام موجود ہے۔ رٹنے کا کشٹ ہر دو صورت میں نہیں اٹھانا پڑے گا۔
آخر میں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ اصطلاحات سچے اور کھرے اہلِ علم کا معاملہ ہیں۔ جو لوگ علم سے طبعی رغبت نہیں رکھتے وہ کبھی ان کا حق ادا نہیں کر پاتے۔ ناچار یا تو اندھا دھند رد کرتے ہیں یا پھر اگر مجبوری کے عالم میں استعمال بھی کرتے ہیں تو بےمعنیٰ اور لغو طور پر۔ مجھے یاد ہے کہ چند سال ادھر ہمارے ایک مشہور نوجوان افسانہ نگار ایک مقامی فورم پر مہمان ہوئے۔ رسمی تقریب کے بعد ایک لمبی دوستانہ نشست صبح تک جاری رہی جس میں ان سے یہ بحث ہوتی رہی کہ افسانہ کیا ہے۔ میرا خیال تھا کہ غزل کا شاعر ہونے کے ناتے میں جانتا ہوں اور بتا سکتا ہوں کہ غزل کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ اسی طرح افسانہ نگار ہونے کے ناتے انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ افسانہ کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ موصوف نے نہ صرف افسانے کی تعریف ایک مطول آئیں بائیں شائیں کے طور پر کی بلکہ یہ بھی فرمایا کہ ادب و فن کی دنیا میں کسی شے کی تعریف ہو ہی نہیں سکتی۔ اس قسم کے رویوں سے محتاط رہنا ضروری ہے۔ عوام تو گاہے گاہے ان پھندوں میں پھنستے رہتے ہیں مگر سنجیدہ لوگوں کو اصطلاحات کی نسبت اس طرح کے تعارفِ جاہلانہ (تجاہلِ عارفانہ کے مقابل) سے ہوشیار رہنا چاہیے۔