آئیوان پاولاف روس کے ایک مشہور عالم گزرے ہیں۔ وہ یہ تو دیکھتے ہی رہتے تھے کہ ان کے کتوں کی رال خوراک کا پیالہ دیکھ کر بہنے لگتی ہے مگر اتفاق سے ایک دن ان کی نظر اس معاملے کے ایک دلچسپ پہلو پر پڑ گئی۔ انھوں نے دیکھا کہ اس آدمی کو دیکھ کر بھی کتے رال ٹپکانے لگتے ہیں جو انھیں راتب ڈالنے پر مامور تھا۔ یہ ایک معنیٰ خیز انکشاف تھا۔
پاولاف نے ایک قدم آگے بڑھ کر اس خیال کی تصدیق کرنے کا فیصلہ کیا جو ان کے دل میں اس مشاہدے سے پیدا ہوا تھا۔ انھوں نے ایک گھنٹی بجانے کا اہتمام کیا جو کتوں کو کھانا دیتے ہوئے ہر بار بجائی جاتی تھی۔ کچھ مدت گزرنے کے بعد گھنٹی بجائی گئی مگر کھانا دیے بغیر۔ نتیجہ توقع کے عین مطابق تھا۔ کتوں کی رال ٹپکنے لگی!
پاولاف کی یہ دریافت کلاسیکی رویہ سازی (Classical Conditioning)کہلاتی ہے اور نظریۂِ سلوکیت (Behaviourism) کے اہم ترین ستونوں میں شمار ہوتی ہے۔ نفسیات کی دنیا میں ابتدا ہی سے اس نظریے کا گہرا تعلق تعلیم و تربیت اور زبان آموزی سے رہا ہے۔ یہ دونوں شعبے اس لحاظ سے بڑی معنویت رکھتے ہیں کہ فرد کا طرزِ فکر و استدلال جسے دوسرے لفظوں میں منطق بھی کہتے ہیں انھی کے طفیل تشکیل پاتا ہے۔
امام المتشککین داؤد ہیوم پاولاف سے سو ڈیڑھ سو برس پہلے اس سے بھی زیادہ حیران کن موقف پیش کر چکے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ دیا سلائی کو بارود کی تہہ پر رگڑنے سے جو شعلہ پیدا ہوتا ہے وہ درحقیقت ایک آزاد وقوعہ ہے۔ ہم خواہ مخواہ یہ سمجھتے ہیں کہ شعلے کا پیدا ہونا دیا سلائی کو رگڑنے کا نتیجہ ہے۔ یہ غلط فہمی محض اس بنیاد پر پیدا ہوتی ہے کہ ہمیشہ پہلے دیا سلائی رگڑی جاتی ہے اور اس کے بعد شعلہ پیدا ہوتا ہے۔ اس تقدیم و تاخیر سے ہرگز ہرگز یہ لازم نہیں آتا کہ ان دونوں واقعات میں علت و معلول کا کوئی تعلق موجود ہے بلکہ یہ محض ہمارے ذہنوں کی اختراع ہے۔
پاولاف کے ہاں ہم دیکھتے ہیں کہ کتے گھنٹی کو خواہ مخواہ راتب سے جوڑ لیتے ہیں اور گھنٹی بجتے ہی رال ٹپکانے لگتے ہیں۔ گویا کتوں کے ہاں گھنٹی سبب یا علت (Cause) ہے اور راتب کا پیالہ اس کا نتیجہ یا معلول (Effect)۔ ہیوم کے ہاں یہی حال انسانی ذہن کی ہر منطق کا ہے۔ یعنی انسان بھی کتوں ہی کی طرح محض دیا سلائی کے بارود پر رگڑے جانے اور اس کے بعد شعلہ بھڑکنے سے یہ منطق تراش لیتا ہے کہ یہ دونوں واقعات ضرور ہی علت و معلول کا درجہ رکھتے ہوں گے۔ جس طرح گھنٹی بجنے کے باوجود کبھی کھانا نہیں بھی ملتا اسی طرح لازم نہیں کہ دیا سلائی رگڑے جانے پر ہر بار شعلہ پیدا کرے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ سلسلۂِ علت و معلول کی ہمارے پاس واقعی کوئی خارجی شہادت اس کے سوا نہیں کہ کچھ چیزیں ایک دوسری کے بعد وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ پہلے ہونے والی چیز کو ہم سبب خیال کرتے ہیں اور بعد میں ہونے والی کو اس کا نتیجہ۔ اس لحاظ سے یہ منطق محض ذہنی سہولت کے لیے وضع کی گئی ایک تدبیر معلوم ہوتی ہے۔ تعلیل یا سلسلۂِ علت و معلول (Causation) کو تو اصولاً ایک لازم اور لاتبدیل قاعدے کی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔ یعنی دیا سلائی کو بارود کی تہہ پر رگڑنے سے ہمیشہ ایک ہی نتیجہ برآمد ہونا چاہیے۔ مگر ایسا نہیں ہوتا۔ اس مقام پر ہم علت و معلول کے دیگر سلسلوں سے رجوع لاتے ہیں اور ضمنی حقائق پر متوجہ ہو کر وہاں سے توجیہات تلاش کرتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ دیا سلائی زور سے نہیں رگڑی گئی یا مسالا گیلا تھا۔ وغیرہ وغیرہ۔
اس تمام بحث میں نکتہ یہ ہے کہ انسان اپنے اردگرد کی کائنات اور معاشرے میں جو کچھ تواتر سے ہوتے دیکھتا ہے اس بنیاد پر اپنے رویے اور منطق تشکیل دیتا ہے۔ شوپن ہاؤر نے کیا خوب کہا تھا:
ہر شخص اپنی نظر کی حدود کو دنیا کی حدود سمجھتا ہے۔
معاشرت کا فائدہ یہ ہے کہ یہ بےبسی اور مجبوری کے عالم میں پیدا ہونے والے آدمی کے بچے کے تحفظ کو یقینی بناتی ہے اور نقصان یہ ہے کہ اس تحفظ کا خراج یہ اس تعلیم اور تربیت کی صورت میں لیتی ہے جس کا وہ بڑا ہو کر بھی عمر بھر اسیر رہتا ہے۔ تعلیم و تربیت کے اس عمل میں ہر معاشرہ، خواہ وہ متمدن اور مہذب ہو خواہ بدوی اور وحشی، اپنے لوگوں کے دل و دماغ پر دولے شاہ کے چوہوں کی طرح کچھ خول چڑھائے بغیر نہیں رہتا۔ یہ ایک لحاظ سے ناگزیر بھی ہے کیونکہ اس قسم کی تربیت کے بغیر خود وہ معاشرہ بھی قائم نہیں رہ سکتا۔ لوگوں کو سکھایا جاتا ہے کہ کیا پہننا ہے، کیا کھانا ہے، کیسے چلنا ہے، کیسے بات کرنی ہے، کیا برتاؤ کرنا ہے، کیسے سوچنا ہے، کیسے محسوس کرنا ہے، کیا اچھا ہے، کیا برا ہے، کیا خوب صورت اور کیا بد ہیئت ہے، کیا نیکی ہے، کیا بدی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب رویے اس دنیا میں آنے والی ایک مسافر روح پر تھوپ دیے جاتے ہیں اور وہ عمر بھر یہی سمجھتی رہتی ہے کہ شاید یہ سب چیزیں سچ مچ یوں ہیں اور اس کے سوا ہو نہیں سکتیں۔
نفسیات میں ایک اور دلچسپ چیز بھی پائی جاتی ہے جسے توثیقی تعصب (Confirmation bias) کہا جاتا ہے۔ اس کا قصہ یہ ہے کہ ذہن جس چیز پر قائم ہو جائے اس کے حق میں پھسینڈے سے پھسینڈے شواہد بھی قبول کرنے لگتا ہے اور خلاف جانے والے ٹھوس حقائق کو بھی خواہ مخواہ نظر انداز کرتا ہے۔ لوگ اشتراکی نظریات کو پڑھتے ہیں تو رومان تک لین دین معلوم ہونے لگتا ہے۔ فرائیڈ کی نفسیات سے متاثر ہو جائیں تو مسجدوں کے مناروں اور گنبدوں میں مرد و زن کے آلاتِ تناسل کی شباہتیں ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ یہ درحقیقت توثیقی تعصب ہی کا شاخسانہ ہے کہ نظریات اور فلسفوں کو فرطِ عقیدت میں ان کی جائز حدود سے باہر نکال کر ایسی ایسی جگہوں پر بھی منطبق کر دیا جاتا ہے جہاں سے وہ مطلقاً تعلق نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ اشتراکی ادب الا ماشاءاللہ ادب محسوس ہی نہیں ہوتا۔ اور عین یہی سبب ہے کہ توسیع پسندانہ عزائم کے ساتھ کی گئی مذہبی جنگوں کے لیے مجاہدین کو بار بار نئی توجیہات تراشنی پڑتی ہیں۔
معاشرہ جب ہمیں دیکھنا، سوچنا اور محسوس کرنا سکھاتا ہے تو اس کے اربابِ بست و کشاد یہ اہتمام بھی کرتے ہیں کہ ان کے دعاویٰ کے برعکس پائے جانے والے حقائق یا تو نظروں سے اوجھل کر دیے جائیں یا پھر ان کی اینڈی بینڈی توجیہات پیش کر کے اس طرح کی تعلیل کو منطقی اعتبار سے صائب اور معتبر قرار دے دیا جائے۔ اس کی ایک بڑی مثال سائنسی طرزِ فکر ہے۔ دنیا میں لاکھوں مظاہر ایسے ہیں جن کی خاکِ پا تک بھی سائنس کا دستِ رسا نہیں پہنچتا۔ مگر آپ دیکھیں گے کہ عالمگیر طور پر نصاب ہائے تعلیم میں ان محیر العقول عناصر اور معجز نما سوانح کا ذکر قطعاً نہیں کیا جاتا جن کی سائنسی توجیہ ممکن نہ ہو۔ سائنس ہی کے بنائے ہوئے کیمرے ایسی مخلوقات کی عینی شہادت پیش کرتے ہیں جن کے بارے میں سائنس ہمیں کچھ بتانے سے قاصر ہے۔ تاہم جدید معاشرے کوشاں رہتے ہیں کہ اس قسم کے مظاہر کی ترویج نہ کی جائے۔ مبادا لوگ سوال کریں اور جواب نہ پا کر باغی ہو جائیں۔ اب چونکہ مکمل سدِ باب عملی طور پر ممکن نہیں اور لوگ گاہے گاہے اس قسم کے واقعات پر مطلع ہو جاتے ہیں اس لیے دوسری راہ وہی اختیار کی جاتی ہے جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔ یعنی ان لوگوں کے مشاہدات، طرزِ فکر اور سوالات کو غیرمنطقی اور غیرسائنسی قرار دے کر رد کر دیا جاتا ہے اور صرف انھی دانش مندوں کی صحیح الدماغی اور راست فکری کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے جو سائنس کے مروجہ نظام اور تحدیدات کے اندر رہتے ہوئے مکالمہ کریں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مذہب پر سائنس کے یہی مویدین اعتراض کرتے ہیں کہ وہ مبینہ طور پر انسانی تخلیق ہوتے ہوئے بھی مافوق البشر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ پھر یہی لوگ سائنس کے ٹھیٹ انسانی اور عقلی کاوش ہوتے ہوئے بھی اس کے خلاف کسی بغاوت کو غیرانسانی اور غیرعقلی قرار دینے سے بھی نہیں چوکتے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کتنی عجیب بات ہے کہ آپ منطق کے اصول بھی خود طے کریں اور پھر ان پر مطمئن نہ ہونے والوں کو انھی اصولوں کی رو سے غیرمنطقی بھی قرار دے دیں!
موجودہ نظامِ تعلیم کی بنیاد سائنس پر استوار ہے اور جدید سائنس کی ماں کا درجہ ریاضی کو حاصل ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ریاضی کا مدار عدد پر ہے مگر عدد کے بارے میں کوئی نہیں جانتا کہ وہ کیا ہے۔ نظریات اور تصورات ہیں مگر اصول یا حقیقت کی سطح پر ہم عدد کو دریافت کرنے میں بالکل ناکام رہے ہیں۔ گویا مادے کی طرح خود سائنس اور ریاضی کی عمارت بھی محض ایک تجلئِ خیال پر قائم ہے۔ اس ضمن میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ عدد موجودات کے نظام میں کسی شے کی ذاتی یا اصلی خصوصیت نہیں ہے۔ ہم تعداد کو چیزوں پر اپنی طرف سے عائد کرتے ہیں۔ مثلاً میرے دو ہاتھ ہیں مگر ان میں سے کسی کی بھی اپنی خصوصیت دو ہونا نہیں ہے۔ بلکہ ہم نے دونوں کو یکساں خیال کر کے دو قرار دیا ہے۔ ہر شے بظاہر اکائی یا ایک ہونے کی صورت میں پائی جاتی ہے۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ خود اکائی یا ایک بھی کوئی معنی نہیں رکھتا جب تک آپ اسے ان دوسرے اعداد کے ساتھ جوڑ کر نہ دیکھیں جو ہم اپنے ذہن میں مختلف چیزوں کی گروہ بندی کے لیے تخلیق کرتے رہتے ہیں۔ یعنی اگر پانچ نہ ہو، پینسٹھ نہ ہو، ہزار اور لاکھ وغیرہ نہ ہوں تو تقابل و توازن نہ ہو سکے گا اور تقابل و توازن نہ ہو گا تو ظاہر ہے کہ ایک کی شناخت اور عرفان ہی ناممکن ہو جائے گا۔ اب یہ واحد عدد بھی ماورائے وہم و گمان ہو گا تو پھر ہم عدد کسے کہیں گے؟
مندرجہ بالا مثال یہ ثابت کرنے کو کافی ہے کہ ہم اپنی تعلیم و تربیت کے دوران میں کس طرح پاولاف کے کتوں کی مانند چیزوں کو خواہ مخواہ ایک دوسری سے جوڑ کر دیکھنے کے عادی کر دیے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ عملی اور معاشرتی زندگی میں اس کا بہت فائدہ ہوتا ہے اور انسان یکساں طور پر سیکھے ہوئے علم ہی کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔ اگر معاشرہ سب پر اس تعلیم کا نفاذ نہ کرے تو انسانوں کے مابین مشترک اقدار نہ ہونے کے سبب بنیادی ابلاغ تک ناممکن ہو جائے۔ اس کی مثال یوں ہے کہ ایک طبیب طب کے علم میں مہارت رکھتا ہے اور ایک ریاضی دان ریاضی میں۔ ریاضی دان ریاضی کے اعلیٰ سطحی مسائل پر طبیب سے بات کر کے شاذ ہی کوئی فائدہ حاصل کر سکتا ہے کیونکہ ان مسائل کے باب میں دونوں کے درمیان کوئی علم اور قدر مشترک نہیں۔ یہی معاملہ طبیب کا بھی ہے کہ وہ بدنِ انسانی اور وظائفِ حیات کی نسبت ہر باریک نکتہ ریاضی دان کو اس لیے نہیں سمجھا سکتا کہ ضروری علم دونوں کے پاس یکساں نہیں ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ معاشرتی و تمدنی زندگی کے لیے تو یہ علم جیسا تیسا تھوپ دیا جاتا ہے اور کام آتا رہتا ہے مگر حقائقِ اشیا اور عرفانِ ذات کے باب میں اس کے اصول اکثر و بیشتر اتنے ٹھوس نہیں ہوتے جتنے ہمیں باور کروائے جاتے ہیں۔ میں آج کل دیکھ رہا ہوں کہ کشمیر کے ہندوستان میں ضم ہونے کے حوالے سے سرحد کے آر پار لوگ وہ باتیں کر رہے ہیں جو انھیں سکھائی گئی ہیں۔ یہ دیکھنا کتنا کرب ناک ہے کہ وہ اتنے جوش و خروش کے ساتھ جن باتوں کو حقیقت سمجھ کر مستقبل کے فیصلے کرنا چاہ رہے ہیں وہ راتب اور گھنٹی کے تعلق سے زیادہ منطقی نہیں ہیں۔ مجھے اس سے بحث نہیں کہ اس قضیے میں کیا سچ ہے کیا جھوٹ۔ مگر جو لوگ لکیر کے دونوں طرف خود کو حق پر سمجھ رہے ہیں ان کے پاس اس کی دلیل اس کے سوا کیا ہے کہ ان کے ذہنوں میں کچھ باتیں بار بار دہرا کر راسخ کر دی گئی ہیں؟ فرض کیجیے پاکستان سے ایک مردِ مومن جوش میں آ کر جہادِ کشمیر کو نکل پڑتا ہے اور ادھر سے ایک ہندو نوجوان بھارت ماتا کی رکھشا کے لیے فوج میں بھرتی ہو جاتا ہے۔ دونوں اپنی مرضی سے کٹ بھی مریں تو یہ سوال اپنی جگہ رہے گا کہ کیا انھیں عقل نہیں دی گئی تھی؟ کیا انھوں نے یقین کر لیا تھا کہ مسئلۂِ کشمیر فی الواقع وہی ہے جو انھیں بتایا گیا ہے؟ کیا جان لینا اور جان دینا اتنے ہی سستے سودے ہیں کہ کسی کے کہے پر بھروسا کر کے اندھا دھند کر لیے جائیں؟ کیا کوئی ہوش مند آدمی اپنے کپڑے یا جوتے خریدتے ہوئے بھی ایسا کرنا چاہے گا جو آپ نے خون کے کاروبار میں کیا؟
لوگ خواہ مذہبی ہوں خواہ غیرمذہبی، چلتے سنی سنائی ہی پر ہیں۔ سائنس میں شخصی سند اہمیت نہیں رکھتی۔ مثلاً میں کہوں کہ دنیا گول ہے تو سائنس اس پر بھروسا نہیں کرے گی خواہ میں قطب الزمان ہی کیوں نہ ہوں۔ مجھے ثابت کرنا پڑے گا۔ لیکن طرفہ تماشا ہے کہ سائنس کے عام مدعی خود ثبوت سے زیادہ قائل شخصیات کے ہوتے ہیں۔ یوٹیوب پر لاتعداد وڈیوز آپ کو مافوق الفطرت واقعات کے مل جائیں گے۔ مگر آپ دیکھیں گے کہ سائنس کا حامی ایک عام شخص اسے دیکھ کر بھی زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد کی تجسیم بن جائے گا کیونکہ اس کے مزعومہ اکابر اور ان کے وضع کردہ اصول کی رو سے دنیا میں ان واقعات کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسے پڑھایا یہی گیا ہے۔ تکرار اسی چیز کی ہوئی ہے۔ راسخ یہی رویہ ہوا ہے۔ یہی قصہ اہلِ مذہب کا بھی ہے۔ آپ لاکھ سر مارتے رہیں کہ حضور، قبر میں صرف مٹی ہوتی ہے۔ مجال ہے کہ کوئی مسلمان ملا ٹس سے مس ہو۔ اسے بتکرار بتایا گیا ہے کہ موت کے بعد قبر کی زندگی ہے۔ آپ قبر کھود کے مٹی نکال بھی لائیں تو وہ نہیں ماننے کا!
اس قسم کے تربیتی مسلمات کا ایک ہی توڑ ہوتا ہے۔ جس طرح کتوں کو راتب سے پہلے گھنٹی کی عادت ڈالی گئی تھی اسی طرح تکرار اور تواتر سے گھنٹی بجائے بغیر راتب دیا جائے۔ مگر سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ ہمیشہ ممکن نہیں ہوتا۔ اگر ایک معاشرہ، تہذیب یا ریاست اپنے افراد کی ایک خاص منہاج پر تربیت چاہتی ہے تو وہ ہما شما کو بلاوجہ یہ موقع نہیں دینے والی کہ اس کی محنت غارت کر دیں۔ پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ معاصر ریاستی، تہذیبی یا تعلیمی موقف کے خلاف جانے والے لوگوں کو مضحکے، مقاطعے یہاں تک کہ تشدد کا بھی شکار ہونے کا خوف رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نئی بات خواہ وہ کتنی ہی درست اور مفید کیوں نہ ہو عام طور پر تب تک ہضم نہیں ہوتی جب تک اس کی تصدیق آپ کے اپنے حلقۂِ فکر کے ارباب نہ فرما دیں۔
آخر میں بس یہ عرض کرنا رہ گیا ہے کہ وہ راہب، جوگی اور مرتاض جو ہر زمانے میں ترکِ دنیا کرتے رہے ہیں کچھ ایسے بےوقوف نہ تھے۔ سیکھے ہوئے غلط علم سے چھٹکارا پانے اور دنیا کو کسی قدر دیکھ چکنے کے بعد اس کی حقیقت پر آزادانہ غور و فکر کے لیے ترکِ علائق سے بہتر راہ کوئی نہیں۔ دنیا بھر کے مذاہب میں دنیا تیاگ کر کی جانے والی حقیقت کی جستجو استحسان کی نظر سے دیکھی جاتی ہے۔ مسلمانوں کے ہاں البتہ یہ خیال پایا جاتا ہے کہ اسلام میں رہبانیت ممنوع ہے۔ لطیفہ یہ ہے کہ خود پیغمبرِ اسلامؐ نے بعثت سے قبل گوشہ گزینی اختیار فرمائی اور غارِ حرا میں متبتل رہے۔ قرآن میں بھی نصاریٰ کی تعریف اس بنا پر کی گئی ہے کہ ان میں رہبان ہوتے ہیں۔ تبتل و انقطاع کو غیر اسلامی قرار دینے کا شگوفہ غالباً علمائے اسلام کی حبِ جاہ نے چھوڑا ہے تاکہ انھیں اپنی سطوت و حشمت کا سکہ جمانے میں کوئی رکاوٹ نہ رہے۔ حسبِ دستور یہ بات اتنی شدت اور تواتر سے دہرائی گئی ہے کہ ایک عام مسلمان اس کی کنہ تک پہنچنے کی ضرورت محسوس کیے بغیر ہی اسے فطری اور حقانی تسلیم کر لیتا ہے۔
خیر، میں ترکِ دنیا کی تعلیم دینے والا کون ہوتا ہوں؟ مدعا صرف اس قدر ہے کہ انسان ہونے اور عقل رکھنے کے ناتے مناسب ہے کہ ہم چیزوں پر آزادانہ تدبر کریں اور اپنی فلاح و بہبود خود اپنے لیے یقینی بنانے کی کوشش کریں۔ اس کے لیے دنیا اور معاملاتِ دنیا سے اوپر اٹھ کر اور اکتسابی تعلیمات کو تج کر مراقبہ و مجاہدہ کرنے سے اچھا کوئی طریقہ تصور میں نہیں آتا۔ زمانے کے سکھائے ہوئے کی کوئی وقعت اس سے زیادہ نہیں کہ وہ زمانے میں آپ کے کام آتا ہے۔ لیکن اس پر ایمان ہی لے آنا بہرحال شعورِ انسانی کے شایان نہیں۔ ورنہ ہم میں اور پاولاف کے کتوں میں کیا فرق ہے؟