Skip to content
  • نثر
  • فہرست
  • اصناف
    • انشائیہ
    • مضمون
    • کہانی
    • مقالہ
    • شذرہ
  • زمرے
    • نقد و نظر
    • انسان
    • مذہب
    • معاشرہ
    • سوانح
    • طنز و مزاح
    • متفرقات
Menu
  • نثر
  • فہرست
  • اصناف
    • انشائیہ
    • مضمون
    • کہانی
    • مقالہ
    • شذرہ
  • زمرے
    • نقد و نظر
    • انسان
    • مذہب
    • معاشرہ
    • سوانح
    • طنز و مزاح
    • متفرقات

علم اور بندگی

مضمون

24 جولائی 2019ء

سقراط کے اس نظریے پر تاریخِ فلسفہ میں بہت لوگوں نے تنقید کی ہے کہ بشر گناہ کی جانب علم کی کمی کی وجہ سے مائل ہوتا ہے۔ اس کا خیال تھا کہ آگ سے جل جانے والا کبھی دیدہ و دانستہ اور بےسبب آگ میں ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ جو ڈالتا ہے وہ درحقیقت علم نہیں رکھتا کہ آگ جلا دیتی ہے۔ علم کے نقص کا یہی اصول سقراط کی رائے میں اس شخص پر بھی صادق آتا ہے جو خود کو شر کی آگ میں جھونک دیتا ہے۔ پس نیکی کی راہ یہ ہے کہ بشر علم کی جستجو کرے اور اپنے تئیں ہر اس شے کی خبر فراہم کرے جو اس کی جسمانی اور روحانی زندگی کو کسی بھی طرح نقصان پہنچا سکتی ہے۔

فلاسفہ نے اس خیال پر عموماً ایک ہی طرح سے گرفت کی ہے اور یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ مثلاً شرابی شراب کے نقصانات پر اچھی طرح مطلع ہونے کے باوجود شراب پیتے رہتے ہیں۔ اب اگر علم ایسی ہی حتمی اور مانع شے ہے جیسی سقراط سمجھتا ہے تو شراب کے مضر اثرات پر متنبہ ہوتے ہی انھیں باز آ جانا چاہیے۔ مگر ایسا نہیں ہوتا۔ لہٰذا فیلسوفِ موصوف کا یہ دعویٰ باطل ہے کہ بدی کا صدور نقصِ علم یا جہالت سے ہوتا ہے۔

دیکھا جائے تو یہ اعتراض کچھ فلاسفہ ہی سے مخصوص نہیں بلکہ عام آدمیوں کے ذہن میں بھی یہی خیال پیدا ہوتا ہے اور وہ فوراً یہ نقص پکڑ کر اس دعوےٰ کو رد کر دیتے ہیں۔ عوام سے ہمیں بحث نہیں مگر فلسفیوں پر حیرت ہے کہ ان میں سے بہت کم اس مقصود تک پہنچے ہیں جو سقراط کے پیشِ نظر معلوم ہوتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ شاید یہ ہے کہ اکثریت علم سے مراد وہ ذہنی اور عقلی نتائج لیتی ہے جو انسان زندگی اور کائنات کے بارے میں نکالتا ہے۔ مگر ہے یوں کہ روشن ضمیر اور صاحب نظر لوگوں کے ہاں علم کچھ اور ہی شے ہے۔ حکیم سنائیؒ نے علم کے عمومی اور عوامی تصور کا یوں محاکمہ کیا ہے:

علم کز تو ترا نہ بستاند
جہل زاں علم بہ بود بسیار

یعنی وہ علم جو تجھے تجھ سے چھین نہ لے اس علم سے جہالت ہزار درجے بہتر ہے۔

گویا علم مجہول اور موہوم خیالات کا کوئی مجموعہ نہیں ہے بلکہ ایک زندہ، زور آور اور زبردست قوت ہے کہ جب انسان کا اس سے سامنا ہوتا ہے تو اسے مغلوب کر لیتی ہے اور پھر وہ کچھ نہیں کرتا مگر جو اس کے جبر کا تقاضا ہو۔ جہل اس کے مقابل ان معلومات یا اقبالؔ کے الفاظ میں "افکار کے نغمہ ہائے بےصوت” پر مشتمل ہے جو انسان کی طبیعت پر کچھ اختیار اور قدرت نہیں رکھتے اور ان کے ہوتے ہوئے بھی انسان وہ سب کرتا ہے جو چاہتا ہے۔

اس کی ایک سادہ مثال یہ ہے کہ کسی مرنجاں مرنج دانش ور سے دس فٹ اونچی دیوار پھاندنے کو کہا جائے تو شاید وہ اپنی صحت اور طبیعت کو دیکھ کر اسے محال اور لغو قرار دے دے۔ لیکن اگر اسی دانش ور کے پیچھ کوئی خونخوار قسم کا کتا لگ جائے تو امیدِ واثق ہے کہ وہ منطقی حساب کتاب کی بجائے ہنگامی طور پر دیوار پھلانگنے کی سرتوڑ کوشش کرے گا۔ سقراط اور سنائیؔ کے نزدیک اس کی پہلی کیفیت جب وہ آرام سے بیٹھا مختلف محرکات اور عوامل کا تجزیہ کر رہا تھا جہالت کی ہے اور دوسری حالت جس میں وہ دھڑکتے ہوئے دل اور کانپتی ہوئی ٹانگوں کے ساتھ ایک بلائے ناگہانی سے فرار کی جدوجہد کرتا نظر آتا ہے علم کی ہے۔ دانش ور کا یہ خیال کہ وہ دیوار نہیں پھاند سکتا یا اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے اس کی خام خیالی اور گمراہی ہے۔ دیوار پھاندنے کی عملی کوشش دراصل اس کا علم ہے۔ کیونکہ یہ اسے مجبور کرتا ہے۔ اس پر اختیار رکھتا ہے اور اس سے وہ کرواتا ہے جو اس کے فائدے کی چیز ہے۔ یہی علم کا وہ رنگ ہے جسے اقبالؔ عشق بھی کہہ کر پکارتے ہیں اسے دماغ کی بجائے دل سے منسوب کرتے ہیں۔

علم ہے ابن الکتاب عشق ہے ام الکتاب

مذاہب کا تصورِ علم تقریباً عالمگیر طور پر یہی ہے۔ مذہب اس علم کو علم نہیں جانتا جو عمل سے جداگانہ کوئی حیثیت رکھتا ہو۔ ہمارے ہاں عالمِ باعمل اور عالمِ بےعمل وغیرہ کی تفریق موجود ہے مگر مثلاً قرآن ہی کی نظر سے دیکھا جائے تو وہ شاید کہیں بھی بےعمل شخص کو عالم قرار نہیں دیتا۔ ایسے لوگ قرآن کے الفاظ میں ظن کے اسیر ہیں۔ یعنی گمان۔ واہمہ۔ قیاس۔ وہ خیال جس کا حقیقتِ اشیا سے کوئی تعلق نہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ مجھے فلسفے پر سب سے بڑا اعتراض یہی ہے کہ اس میں پیش کیے گئے نظام ہائے فکر گو نہایت شاندار اور مرعوب کن ہیں اور بلاشبہ انسان کی غیرمعمولی لیاقت اور صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت اور اس لحاظ سے تمام انسانیت کا باعثِ افتخار سرمایہ ہیں مگر حقیقت سے کوئی اصلی اور لازمی تعلق نہیں رکھتے۔ گویا یہ نظام ہائے فکر الگ الگ کائناتیں ہیں جو انسان کی ندرتِ فکر نے خیالی طور پر پیدا کر دی ہیں اور اپنی تمام تر رعنائی و زیبائی کے باوجود اس کائنات کو سمجھنے میں ہمارے کچھ زیادہ کام نہیں آ سکتیں جس میں ہم چار و ناچار جی رہے ہیں۔

پس علم ایک جیتی جاگتی اور اٹل قوت ہے جسے انسان حاصل کر لے تو گویا اس کی پناہ میں آ جاتا ہے اور ضرر کے اندیشے سے آزاد زندگی بسر کرتا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک شخص علم بھی رکھے اور اس کے بعد اس کے خلاف عمل بھی کرے۔ بلکہ یہ تو ظن کی نشانی ہے۔ ایسا شخص درحقیقت اپنے گمانوں اور مفروضوں کا اسیر ہے جو حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتے لہٰذا پابند اور مجبور کرنے کی قدرت سے محروم ہیں۔۔

ایک اور زاویۂِ نگاہ سے سمجھا جائے تو علم دراصل عقل میں نہیں بلکہ جذبات و احساسات میں پایا جانے والا جوہر ہے۔ جذبات ظاہر ہے کہ تعمیل پر غیرمعمولی قدرت اور اختیار رکھتے ہیں اور انسان کو اپنی تشفی کے لیے مجبور کرتے ہیں۔ لہٰذا کسی شخص کا حقیقی علم اس کے افکار سے معلوم نہیں ہوتا بلکہ ان جذبات سے مترشح ہوتا ہے جو اس کے اندر موقع بموقع پیدا ہوتے اور عملی زندگی میں مختلف رویوں کو جنم دیتے رہتے ہیں۔

اب یہ سمجھنا چاہیے کہ انسان ضعیف البنیان اپنی آرزوؤں اور تمناؤں کا زنجیری ہے۔ یہ تمام آرزوئیں، امنگیں، خواہشات، تمنائیں دراصل کسی نہ کسی ذاتی اور انفرادی بھلائی کا تعاقب ہیں۔ کوئی انسان اپنا برا نہیں چاہتا۔ کوئی انسان بدصورتی اور بدہیئتی کو پسند نہیں کرتا۔ کوئی انسان نہیں چاہتا کہ اسے مشکل اٹھانی پڑے۔ کوئی انسان دھوکا کھانے کا شائق نہیں ہوتا۔ کوئی انسان نفرت سے محبت نہیں رکھتا۔ سب حسن کے شیدائی ہیں۔ سب خیر کے تمنائی ہیں۔ سب حقیقت کے سودائی ہیں۔ یہ خواہشات اور امنگیں حوادثِ زمانہ اور حالات کی ستم ظریفیوں کے سبب رنگا رنگ چولے بدل سکتی ہیں کہ مثلاً ہمیں گمان گزرے کہ فلاں بری چیزوں کو پسند کرتا ہے یا تکلیف اور اذیت کا شوقین معلوم ہوتاہے مگر دیکھنا چاہیے کہ اس قسم کی تبدیلی محض ذوق میں پیدا ہوتی ہے نہ کہ فطرت میں۔ یعنی خود اذیتی میں مبتلا لوگ خود کو اس لیے تکلیف نہیں دیتے کہ وہ تکلیف میں رہنا چاہتے ہیں بلکہ اس لیے کہ انھیں اذیت سے مسرت کشید کرنے کی لت پڑ گئی ہے۔ ہے یہ مسرت ہی کی آرزو جس کی صورت نوبتِ ایام کی چوٹیں کھا کھا کر اس قدر مسخ ہو گئی ہے کہ پہچانی نہیں جاتی۔

مذاہب عام طور پر انسان کو یہ سمجھاتے آئے ہیں کہ خوشی، آسائش اور نفع کی جس آرزو میں وہ آوارہ ہے اس کی تسکین خدا کی بندگی ہی سے ممکن ہے۔ گویا یہ اس کی جہالت ہے جو اسے دنیا میں سرگرداں رکھتی ہے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ یہاں حقیقی اور مستقل خوشی، آسائش اور نفع ممکن نہیں۔ جبکہ علم انسان کو یہ راہ دکھاتا ہے کہ خدا کی یاد اور اس کی بندگی تمام بھلائیوں کا سرچشمہ ہے۔ تاہم قرآنِ مجید نے یہ نکتہ کچھ ایسے اچھوتے اور بلیغ اسلوب میں بیان کیا ہے کہ جس کی نظیر کہیں اور ملنا محال ہے۔

قرآنِ پاک میں انسانوں کا عالمِ ارواح میں باری تعالیٰ سے کیا گیا ایک عہد مذکور ہے۔ فرمایا گیا ہے کہ اللہ عز و جل نے بنی آدم کی پیٹھوں سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان سے ان کی جانوں پر گواہی لی۔ پوچھا کہ کیا میں تمھارا رب نہیں؟ انھوں نے کہا، ہاں۔ ہم گواہی دیتے ہیں۔ اس نے کہا کہ اچھا، پھر قیامت کے دن یہ مت کہنا کہ ہمیں خبر نہ تھی۔ یا یہ کہ ہمارے باپ دادا نے ہم سے پہلے تیرے سوا کسی کو مان لیا تھا اور ہم تو محض ان کے بچے تھے سو ہمیں تو کیوں ان گمراہوں کے فعل پر ہلاک کرے گا؟

غور کا مقام ہے کہ یہ عہد بڑے اہتمام کے ساتھ تمام جانوں سے لیا گیا ہے۔ یعنی ہر انسان سے۔ پھر یہ اطلاع بھی دی گئی ہے کہ اب تم بےخبری کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ پس اگر یہ واقعہ سچ ہے تو اس عہد و پیمان کی کوئی یادگار ضرور ہونی چاہیے اور ہر انسان کے اندر ہونی چاہیے۔ ہماری دانست میں یہ یادگار انسان کا وہ مثالیہ، وہ آدرش ، وہ تڑپ ہے جس کے زیرِ اثر وہ ہمہ دم اپنی زیادہ سے زیادہ بھلائی، خوشی، سکون، آسائش، تحفظ اور فائدہ یقینی بنانا چاہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ انسان کی زندگی میں تمام محرکات خواہش سے پیدا ہوتے ہیں اور خواہش ضمیر کی ان پراسرار گہرائیوں سے ابھرتی ہے جنھیں آج تک وہ خود بھی دریافت نہیں کر سکا۔ ہر خواہش ایک مثالی تصویر کھینچتی ہے جس کی نسبت انسان خیال کرتا ہے کہ اسے پا لیا تو  شاید عیشِ دوام پا لیا۔ مگر دیکھا جاتا ہے کہ دنیا میں وہ چیز کبھی کماحقہٗ میسر نہیں آتی۔ اگر کچھ ہاتھ آتا بھی ہے تو وہ تصویر نہیں بنتی جس کا نقشہ آرزو  نے کھینچا تھا اور انسان دیوانہ وار اس کے پیچھے دوڑ پڑا تھا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس تمام عمل کو ایک یاددہانی کے طور پر دیکھنا چاہیے کہ ہمیں خیر، حسن اور حقیقت کی جو تجلیاں مسلسل کشش کرتی ہیں ان کی کرنیں دراصل اس ذاتِ بےہمتا سے پھوٹ رہی ہیں جو ہمارا رب ہے۔ لہٰذا ہمیں ان کی تکمیل و تسکین کے لیے دنیا اور اسبابِ دنیا سے تعارض نہیں کرنا چاہیے بلکہ اپنے عہد کے موافق اصلِ اصول اور رب الارباب کی جانب متوجہ ہونا چاہیے۔ انسان کے باطن کی یہی بےقراری اور بےاطمینانی غماز ہے کہ دنیا انسان کو کافی نہیں ہے لہٰذا جستجو، طلب اور چاکری کی سزاوار کوئی اور ذات ہے۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر خواہش جو انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے اس کی بھلائی، خوشی اور فائدے کا ایک مرقع دکھا جاتی ہے جو دنیا میں دراصل پایا نہیں جاتا۔ مثلاً بھوک کے عالم میں آپ لذیذ کھانوں کے بارے میں یہ سوچتے ہیں کہ ان سے تسکین اور تقویت پائیں گے۔ مگر کچھ وقت کے بعد دوبارہ بھوک لگتی ہے اور پھر اسی کیفیت سے گزرنا پڑتا ہے۔ رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ لذیذ کھانے مستقل میسر رہیں تو ان کا ذائقہ اپنے معانی کھو بیٹھتا ہے۔ یا پھر یوں ہوتا ہے کہ بیماریاں اور روگ پیدا ہو جاتے ہیں جو لذتِ کام و دہن کی راہ مسدود کر دیتے ہیں۔ جو مزہ  اور تسکین انسان چاہتا ہے وہ اسے نہیں نصیب ہوتی مگر چند لمحوں کی ایک جھلکی کے طور پر۔ وہ بھی ایسی کہ اس کے بعد تڑپ اور بڑھ جاتی ہے اور دستیاب وسائل میں پوری ہونے میں نہیں آتی۔

کیا یہ تمام خواہشات درحقیقت اس دنیا کے پرتو  ہیں جس تک ہمارا خدا ہمیں پہنچانا چاہتا ہے؟ کیا یہ تمام امنگیں اور آرزوؤئیں یاددہانیاں ہیں کہ حتمی بھلائی، جاودانہ زندگی اور عیشِ دائمی کو اس دنیا میں تلاش کرنے والے جاہلِ مطلق ہیں؟ کیا یہ سب چاہتیں اور تمنائیں فی الحقیقت قبلہ نما ہیں جو نجانے کہاں کہاں سے پیدا ہو کر اشارے کرتی رہتی ہیں کہ ہمیں تشفی کے لیے اصل میں کس طرف قدم مارنے چاہئیں؟ کیا امیدوں کا ٹوٹنا اور امنگوں کا برباد ہونا اس لیے ہے کہ ہم ان پر غور کر کے دنیا کے اسباب و علل کو خدا ماننے سے باز آئیں اور اپنے سچے رب کو یاد کریں اور یوں اس شرک سے مجتنب رہیں جو اس کے سوا کسی کو اپنے بھلے برے پر مختار سمجھنے کا نام ہے؟ ہمارا خیال ہے کہ ایسا ہی ہے۔

آرزوؤں کے پیچھے ہر شخص بھاگتا ہے خواہ وہ عالم ہو یا جاہل۔ علم اور جہالت کا اصلی فرق یہ ہے کہ علم آرزوؤں اور جذبات کو نکیل ڈال کر سیدھی راہ لگاتا ہے اور اور جہالت انھیں بھٹکا کر مادی دنیا میں میں گم کر دیتی ہے۔ عالم بھی ضعیف البنیان ہے اور جاہل بھی۔ مگر عالم اس علم کا حامل ہے جو اس کا مالک بن جاتا ہے اور اسے گناہ اور خسارے کے کاموں سے مانع آتا ہے۔ جاہل اس علم کا حامل ہے جو اسے دنیوی اسباب کو خدا بنا کر دکھاتا ہے اور وہ بجائے بندگی بجا لانے کے دنیا میں وہ شے ڈھونڈنے لگتا ہے جو دنیا میں نہیں پائی جاتی۔ اس غفلت اور عصیاں کی زندگی کا ایک ہی چارہ ہے کہ صحیح علم حاصل کیا جائے۔ وہ علم جو صرف زبانی کلامی اورمنطقی و حسابی نہ ہو بلکہ ایک زندہ حقیقت کی طرح انسان کو اپنے تصرف میں لے کر بحفاظت اس منزل تک پہنچا دینے کی قدرت رکھتا ہو جس کی تڑپ اس کے پروردگار نے اس کے اندر رکھ دی ہے۔

راحیلؔ فاروق

پنجاب (پاکستان) سے تعلق رکھنے والے اردو نثر نگار۔

Prevپچھلی نگارشجس کا نام ہے آدم
اگلی نگارشایمان پر ایک ایمان دارانہ نظرNext

تبصرہ کیجیے

اظہارِ خیال

اردو نثر

راحیلؔ فاروق کی نثری نگارشات۔ شعری، ادبی، فکری، معاشرتی اور مذہبی موضوعات پر انشائیے، مضامین اور شذرات۔

آپ کے لیے

سر!

11 ستمبر 2015ء

مائے نی میں کنوں آکھاں

15 مارچ 2016ء

زبان کی سند

20 اپریل 2020ء

اردو گاہ کی چوتھی سالگرہ

3 دسمبر 2020ء

نقل اور عقل

26 ستمبر 2022ء

تازہ ترین

محبت کی قیمت

21 مارچ 2023ء

اصلاح

10 مارچ 2023ء

سبق

6 مارچ 2023ء

عنایت، کرم، شکریہ، مہربانی!

12 فروری 2023ء

علم اور انصاف کا تعلق

14 جنوری 2023ء
ہمارا ساتھ دیجیے

اردو گاہ کے مندرجات لفظاً یا معناً اکثر کتب، جرائد، مقالات اور مضامین وغیرہ میں بلاحوالہ نقل کیے جاتے ہیں۔ اگر آپ کسی مراسلے کی اصلیت و اولیت کی بابت تردد کا شکار ہیں تو براہِ کرم اس کی تاریخِ اشاعت ملاحظہ فرمائیے۔ توثیق کے لیے web.archive.org سے بھی رجوع لایا جا سکتا ہے۔

© 2022 - جملہ حقوق محفوظ ہیں۔