مواد پر جائیں۔
  • راحیلؔ
  • قرارداد
  • تشہیر
  • ضوابط
  • رابطہ
  • راحیلؔ
  • قرارداد
  • تشہیر
  • ضوابط
  • رابطہ
اردو گاہ
  • زبان

    فرہنگِ آصفیہ

    • لغت
    • تعارف
    • معروضات
    • لغت
    • تعارف
    • معروضات

    املا نامہ

    • املا
    • املا نامہ
    • مقدمہ
    • ابواب
    • املا
    • املا نامہ
    • مقدمہ
    • ابواب

    اردو محاورات

    • تعارف
    • فہرست
    • مقدمہ
    • اہمیت
    • ادب
    • مراجع
    • تعارف
    • فہرست
    • مقدمہ
    • اہمیت
    • ادب
    • مراجع

    اردو عروض

    • تعارف
    • فہرست
    • ابواب
    • مصطلحات
    • تعارف
    • فہرست
    • ابواب
    • مصطلحات
  • کلاسیک

    ادبِ عالیہ

    • تعارف
    • کتب
    • موضوعات
    • مصنفین
    • شمولیت
    • تعارف
    • کتب
    • موضوعات
    • مصنفین
    • شمولیت

    لہجہ

    • تعارف
    • فہرست
    • ادبا
    • اصناف
    • تعارف
    • فہرست
    • ادبا
    • اصناف
  • حکمت

    اقوالِ زریں

    • اقوال
    • فہرست
    • شخصیات
    • زمرے
    • زبان
    • اقوال
    • فہرست
    • شخصیات
    • زمرے
    • زبان

    ضرب الامثال

    • تعارف
    • فہرست
    • زبان
    • زمرہ
    • تعارف
    • فہرست
    • زبان
    • زمرہ
  • نظم و نثر

    اردو شاعری

    • تعارف
    • فہرست
    • اصناف
    • زمرے
    • تعارف
    • فہرست
    • اصناف
    • زمرے

    زار

    • تعارف
    • فہرست
    • پیش لفظ
    • پی ڈی ایف
    • تعارف
    • فہرست
    • پیش لفظ
    • پی ڈی ایف

    اردو نثر

    • تعارف
    • فہرست
    • اصناف
    • زمرے
    • تعارف
    • فہرست
    • اصناف
    • زمرے

    کیفیات

    • کیفیت نامے
    • کیفیت نامے
  • معاصرین

    معاصرین

    • معاصرین
    • فہرست
    • مصنفین
    • اصناف
    • موضوعات
    • لکھیے
    • برأت
    • معاصرین
    • فہرست
    • مصنفین
    • اصناف
    • موضوعات
    • لکھیے
    • برأت

غلطی ہائے مضامیں مت پوچھ!

مضمون

27 مئی 2022ء

مختلف نظریات اور ان سے وابستہ لوگوں کے ساتھ ایک عمر گزار کر ہم نے جانا تو ہم نے یہ جانا کہ کسی نظریے، مسلک، مذہب یا فکری روش سے وابستگی کا لازمی اور براہِ راست تعلق فرد کے علم سے نہیں ہوتا۔ یعنی یہ نہیں ہوتا کہ آپ فلسفہ پڑھتے ہیں تو ضرور ہی عالم ہوں گے۔ یا خدا کو نہیں مانتے تو دراصل بہت کچھ جاننے کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔ یا غامدی صاحب کے معتقد ہیں تو اسے آپ کی دانائی کا ثبوت سمجھنا چاہیے۔ نہیں، ایسا نہیں ہوتا۔

واقعہ یہ ہے کہ نظریات و عقائد کے ساتھ عالم اور جاہل ہر دو طرح کے لوگ وابستہ ہوتے ہیں۔ عالم کم اور جاہل زیادہ۔ پھر جب آپ دیکھیں کہ کوئی نظریہ یا مذہب مقبول ہو رہا ہے تو اغلب ہے کہ جہلا کی تعداد اور شرح اور زیادہ بڑھ جائے گی۔ اس کی وجہ محض اس قدر ہے کہ اہلِ علم دنیا میں پائے ہی بہت کم جاتے ہیں۔ اور دراصل یہی لوگ ہوتے ہیں جو مختلف افکار و نظریات کی بنا ڈالتے ہیں۔ لہٰذا ہر فکری یا مذہبی روایت کے پیچھے تو ضرور کوئی نہ کوئی بڑا دماغ موجود ہوتا ہے مگر پیروکار زیادہ تر عوام میں سے آتے ہیں۔ اس لیے وہ کسی بھی عالم کے پیچھے ہوں، ہوتے عموماً جاہل ہی ہیں۔ پس کسی بڑے عالم کا مقتدی یا کسی مفید نظریے کا قائل ہونے کا مطلب یہ نہیں نکالا جا سکتا کہ ماننے والا خود بھی ضرور ہی صاحبِ علم یا ذی شعور ہو گا۔

یہ بات کہنے کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ ایک دو روز میں کئی بار ایک مراسلہ نظر سے گزرا۔ اس میں اہلِ اسلام کی تین بڑی زبانوں یعنی عربی، فارسی اور اردو کی بھد اڑائی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ ان تینوں میں سائنس کے لیے کوئی لفظ نہیں پایا جاتا۔ بین السطور نتیجہ یہ نکالا گیا ہے کہ عربی، فارسی اور اردو بولنے والے سائنس کے حوالے سے نرے بدھو ہیں۔ ہم اس منطق کے باب میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہتے کہ اسے انگریزی پر چسپاں کر کے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ چونکہ انگریزی زبان میں چچا، ماموں، خالو اور پھوپھا کے لیے کوئی الگ لفظ نہیں پایا جاتا اس لیے انگریزوں کے چچا، ماموں، پھوپھا اور خالو ایک ہی ہوتے ہیں۔

ایسے دلائل عموماً ان لوگوں کی جانب سے سامنے آتے ہیں جو مغربی تعلیم کے اسیر اور دلدادہ ہیں مگر آدھے تیتر آدھے بٹیر کے موافق ذرا خام رہ گئے ہیں۔ عام لوگ انھیں پڑھا لکھا اور دانا خیال کرتے ہیں اور ان کا رعب مانتے ہیں۔ اسی لیے ہم نے کہا کہ علم اور عقل کا تعلق کسی نظریے یا روایت سے نہیں ہو سکتا۔ اہلِ مغرب نے بلاشبہ ایک مضبوط علمی و فکری روایت کو جنم دیا ہے اور اس کے عملی ثمرات سے اس کے ماننے والے اور نہ ماننے والے یکساں طور پر مستفید ہو رہے ہیں۔ مگر ہر وہ شخص جو مغربی فکر کا قائل اور مشرقی نظریات کا ناقد ہو، صاحبِ علم نہیں ہوتا۔ بلکہ جیسا ہم نے پہلے عرض کیا، اکثریت تقریباً ہمیشہ نادان اور ہیچ مدان پیروکاروں کی ہوتی ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ سائنس کا لفظ لاطینی سے مستعار ہے اور مادے کی رو سے اس کے معانی جاننے کے ہیں۔ انگریزی میں یہ لفظ لاطینی سے اسی طرح آیا ہے جیسے عربی سے اردو میں علم کا لفظ آیا ہے۔ فرق یہ ہے کہ اہلِ انگریزی نے چند صدیاں پیشتر اسے عام طور پر برتنے کی بجائے ایک اصطلاح کی شکل دی اور اس سے مراد وہ خاص علم لینے لگے جو سائنسی طریقِ کار کے مروج اصولوں پر پورا اترتا ہو۔ ہمارے ہاں بھی لفظ علم یا اس کے کسی مشتق کو اسی طرح اصطلاحی صورت دے کر اس کے معانی محدود اور مخصوص کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن ایک اور طرفہ لطیفہ یہ ہے کہ اردو میں اس قسم کی اصطلاح سازی کے سب سے بڑے مخالف بھی یہی لوگ ہیں جو ہماری زبانوں میں "سائنس” نہ ہونے پر واویلا کر رہے ہیں۔

ہمارا دعویٰ یہ نہیں کہ اردو، فارسی اور عربی بولنے والے اعلیٰ درجے کا سائنسی شعور رکھتے ہیں۔ اس میدان میں اہلِ مغرب بےشک گوئے سبقت لے گئے ہیں اور مشرقیوں کو ان کی عظمت کا ضرور اعتراف کرنا چاہیے۔ ہم صرف اس قدر کہنا چاہتے ہیں کہ صحیح بات کی صحیح دلیل دینا بھی صحیح الدماغ لوگوں کا کام ہے۔ عام آدمی بقدرِ فہم صحیح باتوں کی اتباع تو کر سکتا ہے مگر ان کی صحت کو کماحقہٗ ثابت کرنا اس کے بس سے باہر ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان معروضات سے ہمیں روشن خیال دوستوں کی دل آزاری بھی منظور نہیں۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے مذہبی اور معاشرتی زوال پر ان کا نقد من حیث المجموع نہایت مفید اور وقیع ہے۔ لیکن حماقت عقل والوں سے بھی ہو سکتی ہے اور جہل علم والوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ لہٰذا غیر معقول اور غیر منطقی رویوں کا رد ضرور ہونا چاہیے خواہ روئے سخن انھی کی طرف کیوں نہ کرنا پڑے جو عقل اور منطق کے علم بردار ہوں۔

راحیلؔ فاروق

پنجاب (پاکستان) سے تعلق رکھنے والے اردو نثر نگار۔

Prevپچھلی نگارشآج کوا منڈیر پر بولا
اگلی نگارشدور بینیں، کہکشائیں اور دور کی کوڑیاںNext

تبصرہ کیجیے

اظہارِ خیال

آپ کا کیا خیال ہے؟ جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل کا پتا شائع نہیں کیا جائے گا۔ تبصرہ ارسال کرنے کے لیے * کے نشان والے خانے پر کرنا ضروری ہے۔

اردو نثر

راحیلؔ فاروق کی نثری نگارشات۔ شعری، ادبی، فکری، معاشرتی اور مذہبی موضوعات پر انشائیے، مضامین اور شذرات۔

آپ کے لیے

گاپوچی گم گم

25 مارچ 2016ء

نقدِ روانے

18 جون 2016ء

آج کوا منڈیر پر بولا

20 مئی 2022ء

غلام یاسین فوت ہو گیا

27 دسمبر 2023ء

تلاشِ مسرت

16 فروری 2017ء

تازہ ترین

روٹی اور پڑھائی

10 اگست 2025ء

جا ری عقل

29 جون 2024ء

الوداع، اماں!

4 مئی 2024ء

غلام یاسین فوت ہو گیا

27 دسمبر 2023ء

شاعرانہ مزاج

18 دسمبر 2023ء
ہمارا ساتھ دیجیے

اردو گاہ کے مندرجات لفظاً یا معناً اکثر کتب، جرائد، مقالات اور مضامین وغیرہ میں بلاحوالہ نقل کیے جاتے ہیں۔ اگر آپ کسی مراسلے کی اصلیت و اولیت کی بابت تردد کا شکار ہیں تو براہِ کرم اس کی تاریخِ اشاعت ملاحظہ فرمائیے۔ توثیق کے لیے web.archive.org سے بھی رجوع لایا جا سکتا ہے۔

© 2022 - جملہ حقوق محفوظ ہیں۔