میں نے زندگی پڑھنے اور پڑھانے میں گزاری ہے۔ یہی میرا مشغلہ رہا ہے اور اکثر و بیشتر یہی پیشہ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ مجھ سے زیادہ آگاہ ہمارے تعلیمی نظام کے تار و پود سے کوئی نہ ہو گا مگر اتنا ضرور ہے کہ میں نے ان معاملات پر ہمیشہ تفکر و تعمق کیا ہے اور کچھ ایسے نتائج پر پہنچا ہوں جن سے نہ صرف ہمارے حال پر روشنی پڑتی ہے بلکہ مستقبل بھی آئینہ ہو جاتا ہے۔ دنیا میں علی العموم اور پاکستان میں بالخصوص میں نے تعلیم اور اس کے مضمرات پر جو رائیں قائم کی ہیں ان میں سے کچھ نہایت اہم نکات آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ میرا گمان ہے کہ آج نہیں تو کل آپ ان کا ادراک کرنے والے ہیں یا پھر ان کے اثرات سے متاثر ہونے والے ہیں۔
تعلیم کی نسبت سب سے بڑی اور مہلک غلط فہمی یہ ہے کہ یہ عام ہو گئی ہے۔ اہلِ مغرب عموماً اس کا سہرا اپنے سر باندھتے ہیں اور چھاپا خانے کی ایجاد سے لے کر انٹرنیٹ کے شیوع تک مختلف حقائق سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ پہلے دنیا جاہلِ مطلق تھی۔مجھے اس بات سے اختلاف نہیں۔البتہ اس بات کا میں قطعی منکر ہوں کہ لوگ اب پڑھے لکھے ہو گئے ہیں۔ تاریخِ عالم پر ایک سرسری نظر سے بھی روشن ہو جاتا ہے کہ عوام سدا عوام رہے ہیں اور خواص ہمیشہ خواص۔ تعلیم روزِ اول سے خواص کا حصہ رہی ہے اور اس کی بنیاد پر وہ عوام پر سیاسی، فکری، جذباتی حکومتیں کرتے رہے ہیں۔ عوام پہلے بھی جاہل رہے ہیں، آج بھی جاہل ہیں اور یہ جہالت ان کی محکومیت کی ایک ٹھوس اور دائمی بنیاد ہے۔
ہمارے عہد میں چارہ یوں ڈالا گیا ہے کہ دست کاری، ہنر مندی اور پیشہ وری وغیرہ کو تعلیم کے نام سے موسوم کر دیا گیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے کا دہقان اپنے باپ سے ہل چلانا اور بیج بونا سیکھتا تھا۔ اب یہ کام جامعات سکھاتی ہیں۔ پرانا دہقان جاہل قرار پا گیا ہے اور نیا تعلیم یافتہ کہلاتا ہے۔ قدیم موچی روایت کے مطابق جوتے گانٹھتا چلا آتا تھا۔ جدید کفش ساز جوتوں کے کارخانے کا مہتمم ہے۔ پرکھوں میں بنیے ہوا کرتے تھے۔ آج کل بینکاروں کا زمانہ ہے۔ کچھ بھی نہیں بدلا۔ نام بدل گئے ہیں۔ استاد بدل گئے ہیں۔ اور اس تغیر کی تعبیر یوں کی گئی ہے کہ تعلیم عام ہو گئی ہے۔
میں یہ نہیں کہتا کہ معاشرے میں موچی، کسان اور بنیے نہیں ہونے چاہئیں۔ یہ نظامِ فطرت ہے۔ زندگی یونہی چلتی آئی ہے اور اسے یونہی چلنا ہے۔ انسان انسان کو خلق نہیں کرتا۔ اسے وہ خدا خلق کرتا ہے جس کی سنت لاتبدیل ہے۔ اس لیے بشریت اور عالمِ بشریت کے تقاضے بھی غیرمبدل ہیں۔ ہمارے کھانے پینے سے لے کر اوڑھنے بچھانے تک سب کچھ وہی ہے جو ابتدائے آفرینش سے چلا آتا ہے۔ ہاں یہ ہے کہ مختلف زمانوں میں ہم نے یہ حاجات اور ضروریات مختلف طریقوں سے پوری کی ہیں۔ اعتراض مجھے صرف اس بات پر ہے کہ ہم کسی ایک طریقے کو محض اس لیے حماقت اور جہالت پر مبنی خیال کریں کہ وہ ہمارے زمانے یا جغرافیے میں نہیں پایا جاتا۔ موجودہ تعلیم اور تعلیم یافتگان اسی مغالطے کا شکار ہیں۔
ہمیں یہ سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ تعلیم دراصل ہے کیا۔ اس لفظ کے لغوی معانی ہیں علم سکھانا۔اب علم کیا ہے جو ہمیں تعلیم سکھاتی ہے؟ موچی بننا؟ بنیا بننا؟ نئے دور کا ترکھان، کمھار، دستکار، لوہار، سنار، بھٹیارا وغیرہ بننا؟یہ سب چیزیں بھی مفید ہیں مگر علم چیزے دگر ہست۔ دنیا بھرکے حکما کی اکثریت اس بات پر متفق رہی ہے کہ علم زندگی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کر سکنے کے قابل ہو جانے کا نام ہے۔ نبیِ کریمؐ تو باقاعدہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ الہٰی، مجھے علمِ نافع عطا فرما اور اس علم سے بچا جو نافع نہ ہو۔ یعنی جس میں نقصان ہو یا جس کا کچھ فائدہ نہ ہو۔اب آپ ذرا ٹھہر کر غور فرمائیں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ تعلیم دراصل اس علم کے سیکھنے کا نام ہے جس سے حاصل ہونے والا فائدہ محض روزی روٹی نہیں ہے۔ پیٹ تو جانور بھی بغیر ہنر کے پال جاتے ہیں۔ انسان کا علم وہ ہے جس سے وہ دنیا میں خلافت کرتا ہے۔ باری تعالیٰ کا نائب بن کرخدائی پر خدائی کرتا ہے۔ یہ ہے وہ علم جس کی تعلیم حقیقی تعلیم ہے اور جو کبھی بھی عوام الناس کا حصہ نہیں رہی۔ ہم آپ بس اس دھوکے میں ڈال دیے گئے ہیں کہ خداوندانِ دہر پیٹ پالنے کی جو نت نئی روشیں اور رنگ برنگے آلات متعارف کروائیں ان سے کھیلنے کے قابل ہو جانے والا تعلیم یافتہ ہے۔ لہٰذا تعلیم عملی طور پر فی زمانہ روٹی کمانے کا ہنر سیکھنے کا نام ہے۔ سوال یہ ہے کہ بھوکے تو ہمارے باپ دادا بھی نہیں مرے، ہمارے زمانے میں کیڑے مکوڑے اور کتے بلے بھی نہیں مرتے، تو انھیں بھی تعلیم یافتہ کیوں نہ تصور کر لیا جائے؟ وہ ہم سے اچھے نہیں تو گئے گزرے بھی بہرحال نہیں۔
حقیقی تعلیم زندگی کے ان رازوں کے کھلنے کا نام ہے جو دو جہان کی کلید ہیں۔ تربیتِ نفس سے لے کر تسخیرِ کائنات تک پھیلا ہوا یہ وسیع و عریض سلسلہ اسی طرح شاگردوں تک پہنچایا جاتا رہا ہے۔ ہمارے دور میں تخصیص یعنی سپیشلائزیشن کی آڑ لے کر عوام کو جاہل رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ باقی کائنات تو ایک طرف رہی، خود انسان کے مسیحا ناک، دل، منہ، دانت، جگر وغیرہ کے شعبوں میں الگ الگ سر مار رہے ہیں۔ فرض کریں ان میں سے کسی علامہ کو خود ذہنی تناؤ اور خلفشار کا سامنا ہوتا ہے تو وہ اپنی ذات کے ان نہاں خانوں کے بارے میں ایک گدھے سے زیادہ نہیں جانتا جہاں سے یہ طوفان اٹھتے ہیں۔ یہ ظلم نہیں ہے۔ ہر دور میں عوام یونہی کرتے آئے ہیں اور یونہی کریں گے۔ اس بھید کے ہر ایک پر کھل جانے سے بھی رتی برابر فرق بھی نہیں پڑے گا۔ کیونکہ نظام کی بنا یونہی ڈالی گئی ہے۔ آپ اسے بدلنے کی کوشش کریں گے تو منہ کی کھائیں گے۔ دھکا مار کر خدائی سے باہر نکال دیے جائیں گے۔
گزشتہ ادوار میں چونکہ عوام الناس کو بیچے جانے والے چورن کی نوعیتیں اور ہوا کرتی تھیں اور تعلیم کا فریب عام نہیں ہوا تھا اس لیے ہمیں ان کے نظامِ تعلیم میں بڑے خالص، سیدھے اور کھرے اصول نظر آتے ہیں۔ وہ تعلیم علانیہ خواص کے لیے تھی اس لیے اس میں نہ صرف یہ کہ کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جاتا تھا بلکہ اس حسنِ انتظام کو چھپانے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی جاتی تھی۔ جیسے آج مثلاً سربراہانِ مملکت وغیرہ کا کچھ رعایات پر کھلا کھلا حق سمجھا جاتا ہے اور عوام کے محروم منہ دیکھتے رہنے کے باوجود انھیں یقینی بنانا توقیر و اکرام میں اضافے کا باعث خیال کیا جاتا ہے۔ ان کے رہن سہن اور کھانے پینے تک بہت سی چیزوں میں جو شان اور تمکنت پائی جاتی ہے اسے کوئی گناہ نہیں جانتا اس لیے وہ بھی اسے پوشیدہ رکھنے کی بجائے زیادہ سے زیادہ ظاہر کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ بعینہٖ یہی معاملہ تعلیم کا کچھ عرصہ پہلے تک رہا ہے۔
انسان کا دنیا میں زیادہ سے زیادہ فائدہ بادشاہی ہو سکتا ہے اور آخرت میں نجات۔ دونوں کو یقینی بنانے کے لیے خود اس انسان پر محنت کرنی بہت ضروری ہے جو یہ طمع رکھتا ہو۔ لہٰذا اتالیق اور استاد پرانے نظامِ تعلیم میں نظم و ضبط کو اساسی قرار دیتے رہے ہیں۔ تادیب کا نظام اپنی پوری جبروت کے ساتھ موجود رہا ہے۔ بادشاہوں کی اولادیں جنھیں کوئی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا تھا اگر کسی سے طمانچے کھانے پر مجبور ہوا کرتی تھیں تو وہ استاد تھا۔ زندگی پھولوں کی سیج نہیں ہے۔ نہ گدا کے لیے اور نہ بادشاہ کے لیے۔ اس لیے کلاسیکی نظامِ تعلیم میں اشرافیہ کی یہ کوشش رہی ہے کہ ان کی اولادوں کو خود تعلیم اور معلمین ہی اس قدر سخت جان بنا دیں کہ حقیقی زندگی کا سامنا کرنے کے دوران میں پہاڑ بھی ٹوٹ پڑیں تو ان کے کان پر جوں تک نہ رینگے۔ اسے تادیب کہا جاتا ہے۔ اور آپ دیکھیں گے کہ اس نظامِ تعلیم نے یہ کام بطریقِ احسن سرانجام دیا ہے۔
میں دیکھتا ہوں کہ آج کل لوگ بچوں کی تادیب کو تشدد کا نام دیتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ جسمانی یا نفسیاتی سختی کو جبر سمجھتے ہیں اور اس کے خلاف پورے خلوص سے سرگرمِ عمل ہوتے ہیں۔ برا ہو فرائڈ کی نفسیات کا جسے اربابِ عالم نے ہاتھوں ہاتھ لے کرنہایت کامیابی کے ساتھ ہر ذہن میں کم یا زیادہ گھسیڑ دیا ہے۔ لوگوں کو بچوں کے خوف سے خوف آتا ہے۔ بچوں کی تکلیف سے تکلیف ہوتی ہے۔ کوئی پوچھے کہ بندہ پرور، آپ کے ہاتھ کے یہ چھالے، نازوں کے پالے، مرزا پھوئے آپ اسی دنیا میں چھوڑیں گے یا ان کے لیے کوئی الگ جنت بھی بنا رکھی ہے؟ عمر بھر ان کے سر پر بیٹھ کر ان کی حفاظت بھی کر سکتے ہیں یا کل کلاں اسی بےرحم دنیا کے تھپیڑوں کے حوالے کر دیں گے جو استاد کے ڈنڈے سے زیادمہلک چوٹیں لگایا کرتی ہے؟ ابھی تو اپنے نازپروردوں کو سینے سے لگا کر استاد کو برا بھلا کہہ لیتے ہیں، مقدمے کر دیتے ہیں، سزائیں دلوا دیتے ہیں، کل زندگی نے آپ کی اسی ناکردہ کار اولاد کو خون کے آنسو رلائے تو کیا کریں گے؟ آپ نے دیکھا نہیں کہ اس نرم گرم نظامِ تعلیم کے پیدا کیے ہوئے شاہکار ایک معمولی جذباتی سانحے پر خودکشی تک کر لیتے ہیں؟ آپ کی نظر سے نہیں گزرا کہ آپ کے لال ضبطِ نفس اور جذباتی توازن کی اس حد سے بھی نیچے ہیں جس پر ایک جانور جنگل میں پیدا ہوتا ہے؟ استادوں سے شیریں کلامی اور نرم خوئی کا تقاضا کرتے ہوئے آپ بھول گئے کہ زندگی کے تلخابے میں کتنے زہر گھلے ہیں جو چاروناچار پینے ہی پڑتے ہیں؟ آپ کو نہیں معلوم کہ استاد کی ڈانٹ سے گھبرا کر ماں باپ سے شکایت کر دینے والے یہ لاڈلے جب بڑے ہو کر دفتر میں صاحب کی لعن طعن سنتے ہیں تو انھیں زندگی ہی سے نفرت ہو جاتی ہے؟ اس زندگی سے جو حقیقی زندگی ہے۔
مگر جیسا میں نے پہلے کہا کہ یہ سب عوام کے استحصال کے آلات ہیں۔ میں دنیا کو امتحان گاہ سمجھتا ہوں اور اس میں انقلاب کے امکانات کو بھی یونہی دیکھتا ہوں کہ جیسے کچھ طلبہ ہر چند منٹ کے بعد شور مچایا کریں اور ممتحن کہہ سن کر یا زور زبردستی سے انھیں بٹھا دے یا کمرے سے باہر نکال دے۔ امتحان بہرحال جاری رہے گا۔ دکھ البتہ ہوتا ہے۔ اور تعلیمی نظام کا تو بہت زیادہ ہوتا ہے۔ لوگ دھڑادھڑ نمبر لے کر اور ملازمتیں ڈھونڈ کر اس خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ وہ علم والے ہیں۔ حالانکہ انھیں تو یہ بھی خبر نہیں کہ سچ مچ کے تعلیم یافتہ ان کی دنیا میں جیتے کیسے ہیں۔