مواد پر جائیں۔
  • راحیلؔ
  • قرارداد
  • تشہیر
  • ضوابط
  • رابطہ
  • راحیلؔ
  • قرارداد
  • تشہیر
  • ضوابط
  • رابطہ
اردو گاہ
  • زبان

    فرہنگِ آصفیہ

    • لغت
    • تعارف
    • معروضات
    • لغت
    • تعارف
    • معروضات

    املا نامہ

    • املا
    • املا نامہ
    • مقدمہ
    • ابواب
    • املا
    • املا نامہ
    • مقدمہ
    • ابواب

    اردو محاورات

    • تعارف
    • فہرست
    • مقدمہ
    • اہمیت
    • ادب
    • مراجع
    • تعارف
    • فہرست
    • مقدمہ
    • اہمیت
    • ادب
    • مراجع

    اردو عروض

    • تعارف
    • فہرست
    • ابواب
    • مصطلحات
    • تعارف
    • فہرست
    • ابواب
    • مصطلحات
  • کلاسیک

    ادبِ عالیہ

    • تعارف
    • کتب
    • موضوعات
    • مصنفین
    • شمولیت
    • تعارف
    • کتب
    • موضوعات
    • مصنفین
    • شمولیت

    لہجہ

    • تعارف
    • فہرست
    • ادبا
    • اصناف
    • تعارف
    • فہرست
    • ادبا
    • اصناف
  • حکمت

    اقوالِ زریں

    • اقوال
    • فہرست
    • شخصیات
    • زمرے
    • زبان
    • اقوال
    • فہرست
    • شخصیات
    • زمرے
    • زبان

    ضرب الامثال

    • تعارف
    • فہرست
    • زبان
    • زمرہ
    • تعارف
    • فہرست
    • زبان
    • زمرہ
  • نظم و نثر

    اردو شاعری

    • تعارف
    • فہرست
    • اصناف
    • زمرے
    • تعارف
    • فہرست
    • اصناف
    • زمرے

    زار

    • تعارف
    • فہرست
    • پیش لفظ
    • پی ڈی ایف
    • تعارف
    • فہرست
    • پیش لفظ
    • پی ڈی ایف

    اردو نثر

    • تعارف
    • فہرست
    • اصناف
    • زمرے
    • تعارف
    • فہرست
    • اصناف
    • زمرے

    کیفیات

    • کیفیت نامے
    • کیفیت نامے
  • معاصرین

    معاصرین

    • معاصرین
    • فہرست
    • مصنفین
    • اصناف
    • موضوعات
    • لکھیے
    • برأت
    • معاصرین
    • فہرست
    • مصنفین
    • اصناف
    • موضوعات
    • لکھیے
    • برأت

بر رسولاں بلاغ است و بس

مضمون

24 اپریل 2012ء

جہاں تک میں دیکھ سکتا ہوں، ابلاغ دورِ جدید کے اہم ترین ستونوں میں سے ایک ہے۔ ہر شخص کو اپنے خیالات کے اظہار کا حق تسلیم کیا جاتا ہے اور لطف کی بات یہ ہے رفتہ رفتہ عوام میں اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کا جوش بھی زور پکڑتا جا رہا ہے۔ عقلِ سلیم اس اس شورا شوری میں ہمیں کچھ انوکھے حقائق سجھاتی ہے جن کی حتی المقدور پردہ دری کا بیڑہ میں نے آج اٹھایا ہے۔

صاحب، پہلے تو یہ دیکھیے کہ ابلاغ یا اپنی بات دوسروں تک پہنچانا اپنی نوعیت میں ہے کیا؟ میں آپ سے جو یہ گفتگو کر رہا ہوں، اس میں چند اہم باتیں آپ میں اور مجھ میں مشترک ہیں۔ مثلاً یہ کہ آپ بھی اردو سمجھتے ہیں۔ آپ کو بھی عصرِ حاضر کے مسائل پر تفکر کی عادت ہے۔ آپ بھی امید کرتے ہیں کہ فکر و  تدبر سے شاید ہماری زندگی  کے مسائل نکل آئے۔ یہ سب اقدارِ مشترکہ بالکل سرسری ہیں اور بغیر زیادہ غور کیے معلوم ہو سکتی ہیں۔ ان کے علاوہ بھی اور بہت سی باتیں ہمارے آپ کے بیچ مشترک ہیں جن کا تفصیلی بیان نفسیات، معاشرتی علوم وغیرہ کے ماہرین کے میدان سے تعلق رکھتا ہے۔ ہمارے کام کی بات یہ ہے کہ آپ جو میری بات کو سمجھ رہے ہیں تو یہ امر کاملاً انھی اقدارِ مشترکہ کا مرہونِ منت ہے جو ہمارے درمیان غیرمحسوس طور پر موجود ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کو بیچ سے نکال دیجیے اور ہمارا آپ کا رابطہ منقطع!

سو ابلاغ کے مؤثر ہونے کے لیے متکلم اور سامع یا مصنف اور قاری وغیرہ کے درمیان پہلے سے طے شدہ کچھ اصولوں کا  موجود ہونا ضروری ہے جن کے توسط سے دونوں کا ایک دوسرے سے ربط قائم ہوتا ہے۔ ان اصولوں کو ہم سہولت کی خاطر ایسی پگڈنڈیاں خیال کر سکتے ہیں جن پر چل کے دو اذہان ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں۔ ان چھوٹی چھوٹی پگڈنڈیوں کے ساتھ ساتھ ایک نہایت صاف ستھری سی سڑک بھی چلتی ہے۔ یہ سڑک منطق کی ہے۔ جس قدر کسی شخص کا ذہن انتشار سے پاک ہو گا، اسی قدر اس کی منطق کی سڑک ہموار اور ستھری ہو گی، گو یہ قطعی طور پر ضروری نہیں کہ یہ سڑک اسے منزلِ مقصود تک بھی لے جائے۔ جب کوئی دو شخص ایسے ملتے ہیں جن کی منطقیں کہیں ایک دوسری سے لگا کھاتی ہوں تو ان کے درمیان مکالمہ بارآور ثابت ہونے کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں۔
صاحب منطق نام ہے ایک ترازو کا جس میں آپ حق اور باطل کو تولتے ہیں۔ یہ ترازو ہم سب کا اپنا اپنا ہوتا ہے۔ ہم معاملاتِ زندگی کو اس سے جانچتے رہتے ہیں، جانچتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی کسی خوش نصیب کے ساتھ یوں بھی ہوتا ہے کہ وہ ایک جنس کو تول چکنے کے بعد دیکھتا ہے کہ کسی اور کے ترازو میں اسی جنس کی اسی مقدار کا وزن کچھ اور ہے۔ یہاں سے اس کے نصیب پھوٹتے ہیں۔ وہ ترازوؤں کو تولنے لگتا ہے اور یوں ایک بڑے ترازو، یعنی باقاعدہ علمِ منطق کی بنیاد پڑتی ہے۔
علمِ منطق یہ کوشش کرتا ہے کہ انسانوں کے فکری مسائل کو غیر متنازعہ طور پر انجام تک پہنچائے۔ اس کوشش کی راہ میں ایک عام رکاوٹ ہماری ذاتی، داخلی منطقیں ہوا کرتی ہیں جن کے ایک پلڑے میں ہمارے جذبات کا نادیدہ بوجھ دھرا رہتا ہے۔ عام انسان تو کجا، ماہرینِ منطق کا بالاتفاق کہنا ہے کہ اس بوجھ سے خود ان کے اکابر بھی پنڈا نہیں چھڑا سکتے۔ مگر ہمارا مسئلہ یہ نہیں ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ منطق کو اپنے مسائل پر محاکمہ کا اختیار دینے سے یہ لازم آتا ہےکہ ان مسائل کا حل قابلِ اظہار بھی ہو۔ اور عمرِ عزیز کے اہم ترین مسائل اور ان کے حلوں کا منطقی اظہار ممکن نہیں ہوتا!
بندہ پرور! میں کل بہت خوش تھا۔ طبیعت میں ایک ناقابلِ بیان مسرت اور سرمستی کا احساس پیدا ہو گیا تھا۔ وجہ ذاتی سی تھی۔ میں گھر سے نکلا، بازاروں میں گھوما، دوستوں سے ملا، گپیں ہانکیں، سارا دن گزر گیا اور میں گھر آ کرسو گیا۔ کتنی مزے کی بات ہے کہ میں اپنی خوشی کا عشرِ عشیر بھی اپنے ان دوستوں کومنتقل نہ کر سکا جن کی محبوبائیں ان سے روٹھی ہوئی تھیں۔ اور زیادہ غورطلب یہ بات ہے کہ جن اجنبیوں سے میری بازار میں سلام دعا ہوئی، میں چاہتا بھی تو انھیں اپنی مسرت میں کماحقہ شریک نہ کر سکتا۔ وجہ؟

راحیلؔ فاروق

پنجاب (پاکستان) سے تعلق رکھنے والے اردو نثر نگار۔

اگلی نگارشخدا فروشیNext

تبصرہ کیجیے

اظہارِ خیال

2 خیالات ”بر رسولاں بلاغ است و بس“ پر

  1. گمنام
    30 اکتوبر 2015ء بوقت 08:28

    یہ آگیا پتھر۔ ذرا بچ کے
    اب وقتاً فوقتاً پتھر پھینکنے آجایا کریں گے تآنکہ طلاطم نہ آجائے۔
    آپکی مزاح سے بھرپور تحریریں اچھی لگیں ۔ گوگل سے کسی فورم تک راستہ طے اور وہاں آپکی تحریر دیکھی اور یہاں کا راستہ ناپہ
    خوش رہئے اوراپنی تحریروں سے خوشیاں بانٹتے رہئے۔
    –حبیب–
    اب اتنا بھی گمنام نہیں

    جواب دیں
  2. گمنام
    10 اپریل 2016ء بوقت 12:48

    Aakhree paragraph baqi tehreer sy kuch ktta hua mehsoos hota hay, Go k is main aap nay mntqq or jzbatiyat ki bat ki hay or isi hvalay sy taluq qaem kiya hay lekn mjhy pehli bar prhnay main tslsull ki kmii mehsoos hui…

    or….hul (solution) ki jmaa "Hllon" hay?

    جواب دیں

آپ کا کیا خیال ہے؟ جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل کا پتا شائع نہیں کیا جائے گا۔ تبصرہ ارسال کرنے کے لیے * کے نشان والے خانے پر کرنا ضروری ہے۔

اردو نثر

راحیلؔ فاروق کی نثری نگارشات۔ شعری، ادبی، فکری، معاشرتی اور مذہبی موضوعات پر انشائیے، مضامین اور شذرات۔

آپ کے لیے

معاشرہ، فلسفہ اور مذہب

27 جون 2019ء

منفی سوچ کا علاج

10 دسمبر 2021ء

اعتراف

24 مارچ 2018ء

زبان کی سند

20 اپریل 2020ء

دو مغالطے

31 مارچ 2017ء

تازہ ترین

روٹی اور پڑھائی

10 اگست 2025ء

جا ری عقل

29 جون 2024ء

الوداع، اماں!

4 مئی 2024ء

غلام یاسین فوت ہو گیا

27 دسمبر 2023ء

شاعرانہ مزاج

18 دسمبر 2023ء
ہمارا ساتھ دیجیے

اردو گاہ کے مندرجات لفظاً یا معناً اکثر کتب، جرائد، مقالات اور مضامین وغیرہ میں بلاحوالہ نقل کیے جاتے ہیں۔ اگر آپ کسی مراسلے کی اصلیت و اولیت کی بابت تردد کا شکار ہیں تو براہِ کرم اس کی تاریخِ اشاعت ملاحظہ فرمائیے۔ توثیق کے لیے web.archive.org سے بھی رجوع لایا جا سکتا ہے۔

© 2022 - جملہ حقوق محفوظ ہیں۔