Skip to content
  • نثر
  • فہرست
  • اصناف
    • انشائیہ
    • مضمون
    • کہانی
    • مقالہ
    • شذرہ
  • زمرے
    • نقد و نظر
    • انسان
    • مذہب
    • معاشرہ
    • سوانح
    • طنز و مزاح
    • متفرقات
Menu
  • نثر
  • فہرست
  • اصناف
    • انشائیہ
    • مضمون
    • کہانی
    • مقالہ
    • شذرہ
  • زمرے
    • نقد و نظر
    • انسان
    • مذہب
    • معاشرہ
    • سوانح
    • طنز و مزاح
    • متفرقات

بر رسولاں بلاغ است و بس

مضمون

24 اپریل 2012ء

جہاں تک میں دیکھ سکتا ہوں، ابلاغ دورِ جدید کے اہم ترین ستونوں میں سے ایک ہے۔ ہر شخص کو اپنے خیالات کے اظہار کا حق تسلیم کیا جاتا ہے اور لطف کی بات یہ ہے رفتہ رفتہ عوام میں اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کا جوش بھی زور پکڑتا جا رہا ہے۔ عقلِ سلیم اس اس شورا شوری میں ہمیں کچھ انوکھے حقائق سجھاتی ہے جن کی حتی المقدور پردہ دری کا بیڑہ میں نے آج اٹھایا ہے۔

صاحب، پہلے تو یہ دیکھیے کہ ابلاغ یا اپنی بات دوسروں تک پہنچانا اپنی نوعیت میں ہے کیا؟ میں آپ سے جو یہ گفتگو کر رہا ہوں، اس میں چند اہم باتیں آپ میں اور مجھ میں مشترک ہیں۔ مثلاً یہ کہ آپ بھی اردو سمجھتے ہیں۔ آپ کو بھی عصرِ حاضر کے مسائل پر تفکر کی عادت ہے۔ آپ بھی امید کرتے ہیں کہ فکر و  تدبر سے شاید ہماری زندگی  کے مسائل نکل آئے۔ یہ سب اقدارِ مشترکہ بالکل سرسری ہیں اور بغیر زیادہ غور کیے معلوم ہو سکتی ہیں۔ ان کے علاوہ بھی اور بہت سی باتیں ہمارے آپ کے بیچ مشترک ہیں جن کا تفصیلی بیان نفسیات، معاشرتی علوم وغیرہ کے ماہرین کے میدان سے تعلق رکھتا ہے۔ ہمارے کام کی بات یہ ہے کہ آپ جو میری بات کو سمجھ رہے ہیں تو یہ امر کاملاً انھی اقدارِ مشترکہ کا مرہونِ منت ہے جو ہمارے درمیان غیرمحسوس طور پر موجود ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کو بیچ سے نکال دیجیے اور ہمارا آپ کا رابطہ منقطع!

سو ابلاغ کے مؤثر ہونے کے لیے متکلم اور سامع یا مصنف اور قاری وغیرہ کے درمیان پہلے سے طے شدہ کچھ اصولوں کا  موجود ہونا ضروری ہے جن کے توسط سے دونوں کا ایک دوسرے سے ربط قائم ہوتا ہے۔ ان اصولوں کو ہم سہولت کی خاطر ایسی پگڈنڈیاں خیال کر سکتے ہیں جن پر چل کے دو اذہان ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں۔ ان چھوٹی چھوٹی پگڈنڈیوں کے ساتھ ساتھ ایک نہایت صاف ستھری سی سڑک بھی چلتی ہے۔ یہ سڑک منطق کی ہے۔ جس قدر کسی شخص کا ذہن انتشار سے پاک ہو گا، اسی قدر اس کی منطق کی سڑک ہموار اور ستھری ہو گی، گو یہ قطعی طور پر ضروری نہیں کہ یہ سڑک اسے منزلِ مقصود تک بھی لے جائے۔ جب کوئی دو شخص ایسے ملتے ہیں جن کی منطقیں کہیں ایک دوسری سے لگا کھاتی ہوں تو ان کے درمیان مکالمہ بارآور ثابت ہونے کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں۔
صاحب منطق نام ہے ایک ترازو کا جس میں آپ حق اور باطل کو تولتے ہیں۔ یہ ترازو ہم سب کا اپنا اپنا ہوتا ہے۔ ہم معاملاتِ زندگی کو اس سے جانچتے رہتے ہیں، جانچتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی کسی خوش نصیب کے ساتھ یوں بھی ہوتا ہے کہ وہ ایک جنس کو تول چکنے کے بعد دیکھتا ہے کہ کسی اور کے ترازو میں اسی جنس کی اسی مقدار کا وزن کچھ اور ہے۔ یہاں سے اس کے نصیب پھوٹتے ہیں۔ وہ ترازوؤں کو تولنے لگتا ہے اور یوں ایک بڑے ترازو، یعنی باقاعدہ علمِ منطق کی بنیاد پڑتی ہے۔
علمِ منطق یہ کوشش کرتا ہے کہ انسانوں کے فکری مسائل کو غیر متنازعہ طور پر انجام تک پہنچائے۔ اس کوشش کی راہ میں ایک عام رکاوٹ ہماری ذاتی، داخلی منطقیں ہوا کرتی ہیں جن کے ایک پلڑے میں ہمارے جذبات کا نادیدہ بوجھ دھرا رہتا ہے۔ عام انسان تو کجا، ماہرینِ منطق کا بالاتفاق کہنا ہے کہ اس بوجھ سے خود ان کے اکابر بھی پنڈا نہیں چھڑا سکتے۔ مگر ہمارا مسئلہ یہ نہیں ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ منطق کو اپنے مسائل پر محاکمہ کا اختیار دینے سے یہ لازم آتا ہےکہ ان مسائل کا حل قابلِ اظہار بھی ہو۔ اور عمرِ عزیز کے اہم ترین مسائل اور ان کے حلوں کا منطقی اظہار ممکن نہیں ہوتا!
بندہ پرور! میں کل بہت خوش تھا۔ طبیعت میں ایک ناقابلِ بیان مسرت اور سرمستی کا احساس پیدا ہو گیا تھا۔ وجہ ذاتی سی تھی۔ میں گھر سے نکلا، بازاروں میں گھوما، دوستوں سے ملا، گپیں ہانکیں، سارا دن گزر گیا اور میں گھر آ کرسو گیا۔ کتنی مزے کی بات ہے کہ میں اپنی خوشی کا عشرِ عشیر بھی اپنے ان دوستوں کومنتقل نہ کر سکا جن کی محبوبائیں ان سے روٹھی ہوئی تھیں۔ اور زیادہ غورطلب یہ بات ہے کہ جن اجنبیوں سے میری بازار میں سلام دعا ہوئی، میں چاہتا بھی تو انھیں اپنی مسرت میں کماحقہ شریک نہ کر سکتا۔ وجہ؟

راحیلؔ فاروق

پنجاب (پاکستان) سے تعلق رکھنے والے اردو نثر نگار۔

اگلی نگارشخدا فروشیNext

تبصرہ کیجیے

اظہارِ خیال

اردو نثر

راحیلؔ فاروق کی نثری نگارشات۔ شعری، ادبی، فکری، معاشرتی اور مذہبی موضوعات پر انشائیے، مضامین اور شذرات۔

آپ کے لیے

جس کا نام ہے آدم

14 جولائی 2019ء

تم کو خبر ہونے تک

27 فروری 2015ء

غلطی ہائے مضامیں مت پوچھ!

27 مئی 2022ء

سانحۂِ بہاولپور – طمانچے اور سوال

25 جون 2017ء

سلام دعا

19 جولائی 2018ء

تازہ ترین

محبت کی قیمت

21 مارچ 2023ء

اصلاح

10 مارچ 2023ء

سبق

6 مارچ 2023ء

عنایت، کرم، شکریہ، مہربانی!

12 فروری 2023ء

علم اور انصاف کا تعلق

14 جنوری 2023ء
ہمارا ساتھ دیجیے

اردو گاہ کے مندرجات لفظاً یا معناً اکثر کتب، جرائد، مقالات اور مضامین وغیرہ میں بلاحوالہ نقل کیے جاتے ہیں۔ اگر آپ کسی مراسلے کی اصلیت و اولیت کی بابت تردد کا شکار ہیں تو براہِ کرم اس کی تاریخِ اشاعت ملاحظہ فرمائیے۔ توثیق کے لیے web.archive.org سے بھی رجوع لایا جا سکتا ہے۔

© 2022 - جملہ حقوق محفوظ ہیں۔