مواد پر جائیں۔
  • راحیلؔ
  • قرارداد
  • تشہیر
  • ضوابط
  • رابطہ
  • راحیلؔ
  • قرارداد
  • تشہیر
  • ضوابط
  • رابطہ
اردو گاہ
  • زبان

    فرہنگِ آصفیہ

    • لغت
    • تعارف
    • معروضات
    • لغت
    • تعارف
    • معروضات

    املا نامہ

    • املا
    • املا نامہ
    • مقدمہ
    • ابواب
    • املا
    • املا نامہ
    • مقدمہ
    • ابواب

    اردو محاورات

    • تعارف
    • فہرست
    • مقدمہ
    • اہمیت
    • ادب
    • مراجع
    • تعارف
    • فہرست
    • مقدمہ
    • اہمیت
    • ادب
    • مراجع

    اردو عروض

    • تعارف
    • فہرست
    • ابواب
    • مصطلحات
    • تعارف
    • فہرست
    • ابواب
    • مصطلحات
  • کلاسیک

    ادبِ عالیہ

    • تعارف
    • کتب
    • موضوعات
    • مصنفین
    • شمولیت
    • تعارف
    • کتب
    • موضوعات
    • مصنفین
    • شمولیت

    لہجہ

    • تعارف
    • فہرست
    • ادبا
    • اصناف
    • تعارف
    • فہرست
    • ادبا
    • اصناف
  • حکمت

    اقوالِ زریں

    • اقوال
    • فہرست
    • شخصیات
    • زمرے
    • زبان
    • اقوال
    • فہرست
    • شخصیات
    • زمرے
    • زبان

    ضرب الامثال

    • تعارف
    • فہرست
    • زبان
    • زمرہ
    • تعارف
    • فہرست
    • زبان
    • زمرہ
  • نظم و نثر

    اردو شاعری

    • تعارف
    • فہرست
    • اصناف
    • زمرے
    • تعارف
    • فہرست
    • اصناف
    • زمرے

    زار

    • تعارف
    • فہرست
    • پیش لفظ
    • پی ڈی ایف
    • تعارف
    • فہرست
    • پیش لفظ
    • پی ڈی ایف

    اردو نثر

    • تعارف
    • فہرست
    • اصناف
    • زمرے
    • تعارف
    • فہرست
    • اصناف
    • زمرے

    کیفیات

    • کیفیت نامے
    • کیفیت نامے
  • معاصرین

    معاصرین

    • معاصرین
    • فہرست
    • مصنفین
    • اصناف
    • موضوعات
    • لکھیے
    • برأت
    • معاصرین
    • فہرست
    • مصنفین
    • اصناف
    • موضوعات
    • لکھیے
    • برأت

تم کو خبر ہونے تک

مضمون

27 فروری 2015ء

یونان کے ایک عقل مند کا قصہ مشہور ہے۔ وہ کہیں چلا جا رہا تھا کہ دیکھتا ہے سرِ بازار ایک شخص دوسرے کو پیٹ رہا ہے اور دوسرا نہایت بردباری سے برداشت کیے جاتا ہے۔ ہمارا فلسفی بھی لوگوں میں کھڑا ہو کر تماشا دیکھنے لگا۔ ایک شخص بولا، "مار کھانے والا کس قدر دانا شخص ہے کہ اس کمینے کو پلٹ کر جواب تک نہیں دیتا۔ اگر یہ بھی اس جاہل سے منہ ماری کرتا تو دونوں میں کیا فرق رہ جاتا؟”

ہمارے فلسفی سے رہا نہ گیا۔ کہنے لگا، "یہ شخص ہرگز ہرگز دانا نہیں۔ ہوتا تو کبھی اس حال کو نہ پہنچتا۔”

صاحبو، بات یہی ہے۔ دانا لوگ اور دانا قومیں پیش بندی کے عادی ہوتے ہیں۔پانی سر سے گزرنے کا انتظار نہیں کرتے۔ بند باندھتے ہیں۔ پل باندھتے ہیں۔ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھتے ہیں اس سے پہلے کہ چوہوں کے مزار آثارِ قدیمہ والوں کے حوالے ہو جائیں۔ لیکن پاکستان اور اہلِ پاکستان کا بھلا دانائی سے کیا واسطہ؟ ہم بہو بیٹیاں یہ کیا جانیں؟

ان دنوں تعلیم اور ڈگریوں کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ نظامِ تعلیم کاروبارِ تعلیم بن گیا ہے۔تعلیم اور پیٹ کا یہ معاشقہ ایک ڈیڑھ صدی سے زیادہ پرانا نہیں۔مگر زمانے کی بھیڑچال نے اسے یوں عام کر دیا ہے کہ بھیڑوں کی لاج بھی نہیں رکھی۔

پرائمری اور مڈل سطح کی تعلیم وحشیانہ اصلاحات کی زد میں ہے۔ آئے دن پالیسیاں بدلتی ہیں۔ نصاب بدلتا ہے۔ میڈیم بدلتا ہے۔ گھروں سے بلا بلا کر بلکہ اٹھا اٹھا کر بچوں کو علم سے لتھیڑا جاتا ہے۔ کیسا؟

سکولوں اور کالجوں میں زمانے کی نیرنگیوں کے جلوے ہیں۔ تبدیلی آ گئی ہے۔ کیا بتائیں؟ کون نہیں جانتا؟

یونیورسٹیوں نے ایک اور قدم مستقبل کے روشن خلاؤں میں رکھ دیا ہے۔ ملک کی اہم جامعات میں ہفتہ اتوار کو بھی کلاسیں شروع کر دی گئی ہیں اور رنگ برنگی ڈگریاں اور بھی رنگ برنگے طالبعلموں میں تقسیم کی جارہی ہیں۔ مہینے میں آٹھ دن کی حاضری اور خرچہ پانی دو سال تک دینے کے بعد آپ اپنی پسند کے مضمون کے ماسٹر قرار دے دیے جائیں گے۔ اور کیا چاہیے؟

مگر یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے۔ یہ اتنے سارے تعلیم یافتہ خواتین و حضرات اپنے اتنے سارے علم کا آخر کریں گے کیا؟

پہلے حال یہ ہے کہ ایم فل لوگ پرائمری ٹیچری کے لیے درخواستیں دیتے ہیں اور اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ہیں۔ اب آپ بھی پڑھ لکھ کر آ جائیں گے تو حکومت بیچاری بال (آپ کے) نہیں نوچے گی تو کیا کرے گی؟ آپ الگ ڈگریاں جلائیں گے۔ بیوی بچوں کو پھینکنے کے لیے دریا ڈھونڈتے پھریں گے۔ ساس سسر کی جان کے لاگو ہوں گے۔ خود کشیاں کریں گے۔ اماں ابا آپ کی میت اور اپنے لاکھوں کے نقصان کو روئیں گے۔ بہن بھائی قرض لے کر قبر کھدوائیں گے۔ پلاؤ کھائیں گے احباب فاتحہ ہو گا!

زندگی کے لیے تو نہ آپ نے پڑھا نہ کسی نے پڑھایا۔ نوکری البتہ مطلوب و مقصودِ مومن تھی۔ سو وہ کہاں سے ملے گی؟ یہ تو سوچا ہی نہیں۔ کسی نے بھی!

لیکن یہ سوچنا کسے تھا؟ آپ کو، جو اس بھیڑ چال میں اندھا دھند قدم مارتے رہے؟ مستقبل کے روشن خلاؤں کی جانب؟ خلاؤں میں قدم نہیں جمتے صاحب۔ آپ کو سوچنا چاہیے تھا۔ یونیورسٹیوں کو سوچنا چاہیے تھا؟ جو دھڑا دھڑ مہارت کے جعلی سرٹیفیکیٹ تقسیم کر کے سادہ لوح لوگوں کو دھوکا دے رہی تھیں کہ اب تم علامہ ہو گئے؟ جا، تجھے کشمکشِ دہر سے آزاد کیا! شاید انھیں بھی ایک نظر کیمپس سے باہر دیکھ لینا چاہیے تھا۔ کشمکشِ دہر سے آزادی دوسرے درجے کے اساتذہ سے دو دن پڑھ کر نہیں ملتی۔

کیا حکومت کو سوچنا چاہیے تھا؟ جو خدا اور خدائی کی عدالتوں میں شاید ریاست کے ایک دریا کے کنارے پیاسے مرتے ہوئے کتے کی بابت بھی جواب دہ ہے؟ کیا اسے دیکھنا چاہیے تھا کہ کاروبارِ تعلیم کی رسد طلب سے سیکڑوں گنا بڑھ گئی ہے؟ ضرور سوچنا چاہیے تھا۔ خرگوش کے بچوں سے زیادہ تیزی سے پھیلتی ہوئی "تعلیم” کا سدِ باب کرنا چاہیے تھا یا پھر نوکریوں کے دروازے کھولنے چاہیے تھے۔ زیادہ حدِ ادب۔

وقت گیا گزرا ضرور ہے، مگر ابھی گزرا نہیں ہے، صاحبو۔ سعدیؔ کا شعر ہے:

صدائے تیشہ کہ بر سنگ می خورد دگر است
خبر بگیر کہ آوازِ تیشہ و جگر است

تیشے کی جو صدا پتھر سے ٹکرانے پہ آتی ہے وہ اور ہے۔ خبر لو کہ یہ تیشے اور جگر کی آواز ہے۔

صاحبو، اپنے حال کی خبر لو، خاک ہونے سے پہلے۔ یہ علم کا شور نہیں ہے۔ کاروبار کا زور ہے۔ پتھر پہ چوٹ نہیں پڑ رہی۔ تمھارے جگر پہ وار ہو رہا ہے۔لحظہ بھر ٹھہرو اور غور کرو۔ مستقبل پہ نظر کرو۔ اس حال کو نہ پہنچو کہ مار کھانے کے سوا چارہ نہ رہے۔ اور دانش مند تمھیں پٹتا دیکھ کر منہ پھیر لیں۔ علموں بس کریں او یار!

راحیلؔ فاروق

پنجاب (پاکستان) سے تعلق رکھنے والے اردو نثر نگار۔

Prevپچھلی نگارشگھمنڈی ماں
اگلی نگارشنقش فریادی ہے کس کی شوخئِ تحریر کا – شرحNext

تبصرہ کیجیے

اظہارِ خیال

1 خیال ”تم کو خبر ہونے تک“ پر

  1. سید اختیار جعفری
    4 اگست 2025ء بوقت 08:56

    السلام علیکم ورحمۃ اللہ!
    اج 2025 میں بھی برصغیر کے تمام جامعات کا یہی حال ہے۔ ہندوستان، پاکستان سے لے کر بنگلہ دیش اور انڈونیشیا تک کوئی تعلیمی ادارہ ایسا نہیں جو علم کو بحیثیت علم بانٹ رہا ہو ۔
    وہ صرف تعلیمی اداروں کے اخراجات کی رسیدیں تقسیم کر رہے ہیں۔
    سید اختیار جعفری ،آگرہ

    جواب دیں

آپ کا کیا خیال ہے؟ جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل کا پتا شائع نہیں کیا جائے گا۔ تبصرہ ارسال کرنے کے لیے * کے نشان والے خانے پر کرنا ضروری ہے۔

اردو نثر

راحیلؔ فاروق کی نثری نگارشات۔ شعری، ادبی، فکری، معاشرتی اور مذہبی موضوعات پر انشائیے، مضامین اور شذرات۔

آپ کے لیے

بغاوت سے سفاہت تک

15 فروری 2020ء

سماجی واسطوں کی فطرت سے بغاوت

15 جنوری 2022ء

ترے سروِ قامت سے اک قدِ آدم – شرح

1 مئی 2013ء

فاؤل لینگوئج

10 اپریل 2017ء

پرانی باتیں

21 اپریل 2013ء

تازہ ترین

روٹی اور پڑھائی

10 اگست 2025ء

جا ری عقل

29 جون 2024ء

الوداع، اماں!

4 مئی 2024ء

غلام یاسین فوت ہو گیا

27 دسمبر 2023ء

شاعرانہ مزاج

18 دسمبر 2023ء
ہمارا ساتھ دیجیے

اردو گاہ کے مندرجات لفظاً یا معناً اکثر کتب، جرائد، مقالات اور مضامین وغیرہ میں بلاحوالہ نقل کیے جاتے ہیں۔ اگر آپ کسی مراسلے کی اصلیت و اولیت کی بابت تردد کا شکار ہیں تو براہِ کرم اس کی تاریخِ اشاعت ملاحظہ فرمائیے۔ توثیق کے لیے web.archive.org سے بھی رجوع لایا جا سکتا ہے۔

© 2022 - جملہ حقوق محفوظ ہیں۔