مواد پر جائیں۔
  • راحیلؔ
  • قرارداد
  • تشہیر
  • ضوابط
  • رابطہ
  • راحیلؔ
  • قرارداد
  • تشہیر
  • ضوابط
  • رابطہ
اردو گاہ
  • زبان

    فرہنگِ آصفیہ

    • لغت
    • تعارف
    • معروضات
    • لغت
    • تعارف
    • معروضات

    املا نامہ

    • املا
    • املا نامہ
    • مقدمہ
    • ابواب
    • املا
    • املا نامہ
    • مقدمہ
    • ابواب

    اردو محاورات

    • تعارف
    • فہرست
    • مقدمہ
    • اہمیت
    • ادب
    • مراجع
    • تعارف
    • فہرست
    • مقدمہ
    • اہمیت
    • ادب
    • مراجع

    اردو عروض

    • تعارف
    • فہرست
    • ابواب
    • مصطلحات
    • تعارف
    • فہرست
    • ابواب
    • مصطلحات
  • کلاسیک

    ادبِ عالیہ

    • تعارف
    • کتب
    • موضوعات
    • مصنفین
    • شمولیت
    • تعارف
    • کتب
    • موضوعات
    • مصنفین
    • شمولیت

    لہجہ

    • تعارف
    • فہرست
    • ادبا
    • اصناف
    • تعارف
    • فہرست
    • ادبا
    • اصناف
  • حکمت

    اقوالِ زریں

    • اقوال
    • فہرست
    • شخصیات
    • زمرے
    • زبان
    • اقوال
    • فہرست
    • شخصیات
    • زمرے
    • زبان

    ضرب الامثال

    • تعارف
    • فہرست
    • زبان
    • زمرہ
    • تعارف
    • فہرست
    • زبان
    • زمرہ
  • نظم و نثر

    اردو شاعری

    • تعارف
    • فہرست
    • اصناف
    • زمرے
    • تعارف
    • فہرست
    • اصناف
    • زمرے

    زار

    • تعارف
    • فہرست
    • پیش لفظ
    • پی ڈی ایف
    • تعارف
    • فہرست
    • پیش لفظ
    • پی ڈی ایف

    اردو نثر

    • تعارف
    • فہرست
    • اصناف
    • زمرے
    • تعارف
    • فہرست
    • اصناف
    • زمرے

    کیفیات

    • کیفیت نامے
    • کیفیت نامے
  • معاصرین

    معاصرین

    • معاصرین
    • فہرست
    • مصنفین
    • اصناف
    • موضوعات
    • لکھیے
    • برأت
    • معاصرین
    • فہرست
    • مصنفین
    • اصناف
    • موضوعات
    • لکھیے
    • برأت

فکری تضادات کا جواز

مضمون

12 نومبر 2021ء

ایک کمرے کا تصور کیجیے جس میں روشنی ہی روشنی ہو۔ کبھی تاریکی کا گزر نہ ہوتا ہو۔ آپ کا کیا خیال ہے ایسا کمرہ آپ کو کتنے میں پڑے گا؟ اور آپ کب تک اسے اس حالت پر قائم رکھ سکیں گے؟

ایک جگہ کا دھیان کیجیے جہاں بدبو کا گزر نہ ہو۔ صرف خوشبو ہی خوشبو ہو۔ ایسی جگہ بنانے کے لیے آپ کو کیا کیا جتن کرنے پڑیں گے؟ اور پھر وہ زیادہ سے زیادہ کتنا عرصہ خوشبودار رہ پائے گی؟ اور پھر آپ کو اگر وہاں رہنا پڑے تو آپ کتنی دیر وہاں ٹک پائیں گے؟

روشنی اچھی چیز ہے مگر مسلسل اور مستقل روشنی اس کائنات میں کہیں نہیں پائی جاتی۔ خوشبو سب کو بھاتی ہے مگر دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں اس کا ازلی ابدی بسیرا ہوا ہو۔ اگر انسان اپنی مثالیت پرستی کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایسی جگہیں بنانا بھی چاہے جہاں روشنی اور خوشبو کو دوام حاصل ہو تو اس میں بےپناہ قوت صرف ہو گی۔ وہاں مستقلاً رہنا عام طور پر انسانوں کے لیے ناممکن ہو گا۔ اور پھر کچھ عرصے کے بعد جب وہ دیوانے جن کو یہ خیال آیا تھا مر جائیں گے تو یہ جنت بھی واپس دنیا بن جائے گی۔

کائنات میں وجود کے یہی معانی ہیں کہ یہ مسلسل اور مستقل نہیں ہے۔ کوئی چیز اچھی یا بری ایسی نہیں جو ایک ہی حال پر ہمیشہ سے چلی آتی ہو۔ ہر چیز کو عروج ہے اور پھر ہر چیز کو زوال ہے۔ انسان کی کیفیت بھی یہی ہے۔ کوئی سراپا خیر نہیں اور کوئی سرتاپا شر نہیں۔ اچھائی اور برائی کا توازن بنتا بگڑتا رہتا ہے اور زندگی تمام ہو جاتی ہے۔

اس حال میں کہ ہم ہر چیز میں داخلی طور پر تضادات کا مشاہدہ کرتے ہیں، ہم میں سے بعض لوگوں کو یہ عارضہ لاحق ہے کہ وہ اپنی فکر کو تضادات سے پاک کرنا چاہتے ہیں۔ اور دوسروں پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ان کی فلاں بات فلاں بات سے الٹ ہے لہٰذا درست نہیں۔ سب سے دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ شرط انسانی فکر کے اعلیٰ ترین منہج یعنی فلسفہ اور سائنس کے اصولِ اول کا درجہ رکھتی ہے کہ آپ کا ہر دعویٰ داخلی تضادات سے پاک ہو۔ مجھے یہ تصنع ایسا ہی بیکار معلوم ہوتا ہے جیسے ایک مکان بنانا جہاں صرف روشنی ہی روشنی ہو۔ مانا کہ روشنی اچھی چیز ہے مگر تاریکی کو نظر انداز کرنے کی قیمت بہت بھاری ہو سکتی ہے۔

انسانی فکر تضادات سے صرف اس صورت میں پاک ہو سکتی ہے کہ وہ اس کائنات سے تعلق نہ رکھے۔ کیونکہ اگر فکر کا تعلق کائنات سے ہے تو اس میں ہر شے کی ضد پائی جاتی ہے۔ نیکی کے ساتھ بدی ہے۔ سفید کے ساتھ سیاہ ہے۔ عروج کے ساتھ زوال ہے۔ ابتدا کے ساتھ انتہا ہے۔ خوشی کے ساتھ دکھ ہے۔ ان میں سے صرف ایک کو چن کر کسی جنت یا جہنم کا تخیل تو باندھا جا سکتا ہے جو کامل اچھائیوں یا کامل برائیوں پر مشتمل ہو مگر دنیا کی حقیقت کے بارے میں کوئی ٹھوس بات نہیں کی جا سکتی۔ شاعری اور مصوری ایسا کریں تو تو کچھ اچنبھے کی بات نہیں۔ مگر فلسفہ اور سائنس اپنی فکر میں ایسی مثالیت کی جستجو کریں تو عبرت کا مقام ہے۔

حقیقی دنیا کے تضادات اور اختلافات کو نظرانداز کر کے ایک کامل خیالی دنیا بسا لینے اور اس کے پیچھے اندھا دھند بھاگنے کی روش نئی نہیں مگر ہمارے زمانے میں شاید اسے کچھ زیادہ ہی عروج حاصل ہوا ہے۔ ہم نے اشتراکیت جیسے فلسفوں میں امیر اور غریب کا فرق مٹا دینے کی کوشش کی ہے۔ حقوقِ نسواں کی تحریک نے مرد اور عورت کے امتیاز پر ضرب لگائی ہے۔ جمہوریت نے اچھے اور برے کو نظرانداز کر کے سب کو برابر کر دیا ہے۔ یہ سب کوششیں اسی قسم کی ہیں جیسے کوئی نادان شور سے گھبرا کر ایک ایسی جگہ تلاش کرنے کی کوشش کرے جہاں کامل خاموشی ہو۔ یا خاموشی سے عاجز آ کر وہ مقام ڈھونڈے جہاں صرف شور ہو۔ زندگی ایسی نہیں ہے۔ اور اگر کوئی ایسی زندگی گزارنا چاہے تو یہ سودا بہت مہنگا پڑ سکتا ہے۔

میں یہ نہیں کہتا کہ دن کو روشن اور تاریک دونوں سمجھ لینا چاہیے۔ مگر اتنا تو ہو کہ دن کو روشن کہیں تو رات کو تاریک بھی تسلیم کریں۔ یہ نہ ہو کہ رات میں بھی روشنی کا وجود چاند اور ستاروں کی مدد سے ثابت کر کے اسے دن کے برابر قرار دے دیا جائے۔ یا دن میں بھی کسی تہہ خانے کی مثال دے کر رات پیدا کر دی جائے۔ یہ انسان کا تصنع اور ریاکاری ہے۔ فطرت میں روشنی اور تاریکی دونوں پائی جاتی ہیں اور دونوں کا اپنا اپنا مقام ہے۔

تحریکِ حقوقِ نسواں کی مثال لیجیے۔ وہ عورت اور مرد کو ایک ہی ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ جب فطرت نے دونوں کو مختلف پیدا کیا ہے تو مصنوعی طور پر برابر قرار دینے کے لیے دور کی کوڑیاں لانے کا فائدہ؟ مرد عورت نہیں ہو سکتا اور عورت مرد نہیں ہو سکتی۔ دن اور رات کی مثال کی طرح آپ کھینچ تان کر کچھ تاویلات کر سکتے ہیں مگر مرد عورت کے ساتھ کچھ اقدارِ مشترک رکھنے کے باوجود مرد ہے اور عورت مرد سے ملتی جلتی ہونے کے باوجود عورت ہے۔ آپ دونوں کو ایک ہی لاٹھی سے نہیں ہانک سکتے۔ یا شاید یوں کہنا چاہیے کہ ہانک تو سکتے ہیں مگر یہ کوئی عقلمندی نہیں ہو گی۔

فکر کو تضادات سے پاک کرنے کا مرض میرے خیال میں انسان کے اندر تکبر اور سرکشی کے خمیر سے پیدا ہوتا ہے۔ وہ خیال کرتا ہے کہ اس کی فکر کوئی ایسی طاقت ور شے ہے کہ اگر اس میں صفائی اور یکسانیت پیدا ہو گئی تو گویا کائنات میں ہو گئی۔ یہ بھول جاتا ہے کہ اس کی سوچ اس کے مغزِ سر سے باہر کوئی وجود نہیں رکھتی۔ کائنات اس کے کاسۂ سر میں ہونے والی اتھل پتھل سے بےنیاز ہے، تھی اور رہے گی۔ لہٰذا دانائی یہ نہیں ہے کہ آپ اپنی فکر کو تضادات سے پاک کریں بلکہ یہ ہے کہ آپ اسے کائنات میں پائے جانے والے تضادات کے عین مطابق ڈھال لیں۔

میں نے قرآنِ مجید کو دنیا کی کسی بھی اور کتاب سے زیادہ توجہ، خلوص اور محبت سے پڑھا ہے۔ فطری طور پر اس پر ہونے والے اعتراضات کا جائزہ بھی گاہے گاہے لیتا رہا ہوں۔ ایک عام اعتراض یہ ہے کہ یہ کتاب داخلی تضادات سے پر ہے۔ ایک جگہ ایک بات کرتی ہے تو دوسری جگہ دوسری۔ کوئی ایک بات، ایک اصول، ایک قاعدہ نہیں ملتا۔ میں نے دیکھا ہے کہ مسلمان عام طور پر اپنے تئیں اس الزام کا اندھا دھند دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اینڈی بینڈی توجیہات تراش کر تضادات کو کالعدم ثابت کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ میری رائے میں ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ قرآنِ مجید میں مختلف عبارات فی الواقع ایک دوسری سے متضاد ہیں اور ہونی چاہئیں۔ بات یہ نہیں ہے کہ یہ اعتراض غلط ہے۔ بات یہ ہے کہ یہ اعتراض کوئی اعتراض نہیں ہے۔

میں درحقیقت اسے قرآن، انجیل، توریت اور صحف الانبیا کی صداقت کا ثبوت جانتا ہوں کہ ان میں وہ مصنوعی فکری یکسانیت اور مطابقت نہیں پائی جاتی جو انسانی سوچ کا خاصہ ہے۔ یہ کتب دن کو دن اور رات کو رات کہتی ہیں۔ اچھائی اور برائی دونوں کے وجود کو تسلیم کرتی ہیں۔ جہاں جس بات کا موقع ہو وہاں وہ ارشاد فرماتی ہیں۔ فلسفیوں کی طرح ایک ہی لاٹھی سے گدھے گھوڑے کو نہیں ہانکتیں۔ مجھ سے پوچھیے تو میں کبھی ایسی کتاب یا فلسفے کو الہامی تو کجا حکیمانہ بھی تسلیم نہیں کر سکتا جس میں مناسبِ حال تضادات اور اختلافات نہ پائے جائیں۔ مناسبِ حال سے میری مراد یہی ہے کہ حقیقی دنیا کے مختلف تناظرات میں جو فرق پایا جاتا ہے وہی بات میں بھی پایا جائے۔

کتاب اللہ کی کسی آیت سے اگر سرمایہ دارانہ نظام کا جواز نکلتا ہے تو اس نظام کی اس قدر حقیقت واقعی ہے۔ اگر اشتراکی کسی حکم کو اپنے فلسفے کے مطابق پاتے ہیں تو فی الواقع دنیا اسی طرح چلتی ہے۔ اگر دونوں باتیں پائی جاتی ہیں تو زندگی عین اسی طرح ہے۔ یہ کتاب اللہ کا قصور نہیں کہ اس میں متضاد باتیں اکٹھی ہو گئی ہیں۔ یہ تو اشتراکی اور سرمایہ دارانہ فلسفے کی غلطی ہے کہ انھوں نے ایک دوسرے کی حقیقت کو یکسر نظر انداز کر کے اپنے تئیں ایک مصنوعی نظام قام کرنے کی کوشش کی ہے۔ دنیا میں تو دونوں نظریات کسی نہ کسی حد تک صداقت رکھتے ہیں۔ پس نظامِ عالم اپنی اصل میں ویسا ہی متناقض ہے جیسا کتاب اللہ میں آیا ہے اور اس میں مختلف عناصر کے اختلاف کی عین وہی حیثیت، حقیقت اور اہمیت ہے جو مختلف آیات میں ذکر کی گئی ہے۔

الہامی کتب جس دنیا کی بات کرتی ہیں وہ تضادات سے پر سہی مگر پائی جاتی ہے اور ہم اس میں رہتے ہیں۔ فلسفے جس دنیا کا خواب دیکھتے ہیں وہ فلسفیوں کے دماغ کے سوا کہیں ہے ہی نہیں۔ فکر کا کمال اس بات پر منحصر نہیں ہے کہ دماغ لڑا کر ایک مصنوعی ہم آہنگی پیدا کر دی جائے بلکہ اس بات پر موقوف ہے کہ وہ حقیقی دنیا سے کس قدر مطابقت رکھتی ہے۔

راحیلؔ فاروق

پنجاب (پاکستان) سے تعلق رکھنے والے اردو نثر نگار۔

Prevپچھلی نگارشعوامی مقبولیت کے نئے اصول
اگلی نگارشبارہ برس پہلے کی ایک یادNext

تبصرہ کیجیے

اظہارِ خیال

آپ کا کیا خیال ہے؟ جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل کا پتا شائع نہیں کیا جائے گا۔ تبصرہ ارسال کرنے کے لیے * کے نشان والے خانے پر کرنا ضروری ہے۔

اردو نثر

راحیلؔ فاروق کی نثری نگارشات۔ شعری، ادبی، فکری، معاشرتی اور مذہبی موضوعات پر انشائیے، مضامین اور شذرات۔

آپ کے لیے

اعتراف

24 مارچ 2018ء

دور بینیں، کہکشائیں اور دور کی کوڑیاں

13 جولائی 2022ء

شاعری سمجھیے

15 اپریل 2023ء

منفی سوچ کا علاج

10 دسمبر 2021ء

دو جہان

9 فروری 2018ء

تازہ ترین

روٹی اور پڑھائی

10 اگست 2025ء

جا ری عقل

29 جون 2024ء

الوداع، اماں!

4 مئی 2024ء

غلام یاسین فوت ہو گیا

27 دسمبر 2023ء

شاعرانہ مزاج

18 دسمبر 2023ء
ہمارا ساتھ دیجیے

اردو گاہ کے مندرجات لفظاً یا معناً اکثر کتب، جرائد، مقالات اور مضامین وغیرہ میں بلاحوالہ نقل کیے جاتے ہیں۔ اگر آپ کسی مراسلے کی اصلیت و اولیت کی بابت تردد کا شکار ہیں تو براہِ کرم اس کی تاریخِ اشاعت ملاحظہ فرمائیے۔ توثیق کے لیے web.archive.org سے بھی رجوع لایا جا سکتا ہے۔

© 2022 - جملہ حقوق محفوظ ہیں۔