Skip to content
  • نثر
  • فہرست
  • اصناف
    • انشائیہ
    • مضمون
    • کہانی
    • مقالہ
    • شذرہ
  • زمرے
    • نقد و نظر
    • انسان
    • مذہب
    • معاشرہ
    • سوانح
    • طنز و مزاح
    • متفرقات
Menu
  • نثر
  • فہرست
  • اصناف
    • انشائیہ
    • مضمون
    • کہانی
    • مقالہ
    • شذرہ
  • زمرے
    • نقد و نظر
    • انسان
    • مذہب
    • معاشرہ
    • سوانح
    • طنز و مزاح
    • متفرقات

زبان کی سند

شذرہ

20 اپریل 2020ء

میری حافظ صاحب کی نسبت ابتدائی رائے یہ تھی کہ صاحبِ مطالعہ اور فہیم آدمی ہیں۔ جو باتیں محولہ مراسلے میں کی گئی ہیں ان سے متوقع نہیں تھیں۔

اول تو لفظ درست عربی الاصل نہیں۔ ہمارے علم کے مطابق ٹھیٹھ فارسی کلمہ ہے۔ دوم یہ کہ "گی” کے لاحقے کی نسبت حافظ صاحب غلط فہمی کا شکار ہیں کہ یہ صرف فارسی الاصل الفاظ کے ساتھ روا ہے۔ طرفگی، مشاطگی، مسخرگی، باقاعدگی، بد مزگی، بےحوصلگی، بد معاملگی، خوش سلیقگی وغیرہ اکثر عربی مادوں کے کلمات و تراکیب میں یہ لاحقہ فارسی اور اردو میں رائج ہے۔ اصول دراصل یہ ہے کہ ہائے مختفی یا بعض اوقات الف پر ختم ہونے والے اسمائے صفت کو اسمِ کیفیت میں بدلنے کے لیے آخری حرف کی جگہ "گی” ملحق کیا جاتا ہے۔ جیسے شگفتہ سے شگفتگی اور خفا سے خفگی۔

موصوف نے عوام کو بھی اس عبارت میں بتکرار اسمِ مونث کے طور پر برتا ہے۔ اگر وہ فی الواقع عوام کے کلام کو اس درجہ لائقِ اعتنا سمجھتے ہیں تو ہم کل کلاں ان کے مراسلوں میں چھابڑی والوں اور بازاریوں کے سے الفاظ کی توقع بھی کر سکتے ہیں۔ آخر وہ بھی جمہور ہیں۔ عوام ہیں۔ کالانعام سہی!

حافظ صاحب کا ایک اور تسامح یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ زبان کے حوالے استناد کے ضمن میں عوام کے مقابل علما کو سمجھتے ہیں۔ یہ بڑی بےبنیاد سی بات ہے۔ علما کے درجے کے لوگ اچھی زبان کے قواعد اور اصول ضرور طے کر سکتے ہیں مگر وہ سند بھی ہوں، یہ کچھ ایسا لازم نہیں۔ مثلاً ناسخؔ نے اردو کا محاورہ مصنوعی طور پر طے کرنے کی بڑی جانکاہ کوشش کی مگر داغؔ باقاعدہ عالم نہ سمجھے جانے کے باوجود سند کے معاملے میں ان سے اولیٰ ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ تمام اچھی چیزوں کی طرح زبان کا معیار بھی خواص ہی ہیں۔ عوام کی بولی ٹھولی سے سند لینے والے لوگ عوام ہی کی سطح پر آن رہتے ہیں۔ مزید برآن یہ زیادہ تر محض ایک فکری رویہ ہے۔ عملی طور پر اس کے مویدین بھی کم ہی چاہیں گے کہ مثلاً کسی سے کمبخت یا ظالم کہہ کر خطاب کرنے کی بجائے BC کہیں۔

لفظ و تلفظ میں عوام کی سند….درستی (درست + یائے نسبتی) اس لیے درست کہا جاتا ہے کہ درست عربی کا لفظ ہے چنانچہ اس کے…

Posted by Hafiz Safwan on Saturday, April 18, 2020

راحیلؔ فاروق

پنجاب (پاکستان) سے تعلق رکھنے والے اردو نثر نگار۔

Prevپچھلی نگارشبغاوت سے سفاہت تک
اگلی نگارششعر اور معنیٰNext

تبصرہ کیجیے

اظہارِ خیال

اردو نثر

راحیلؔ فاروق کی نثری نگارشات۔ شعری، ادبی، فکری، معاشرتی اور مذہبی موضوعات پر انشائیے، مضامین اور شذرات۔

آپ کے لیے

موت

26 ستمبر 2017ء

مذہب، الحاد، سائنس اور زمانہ

19 جنوری 2020ء

مباش منکرِ غالبؔ

17 جنوری 2019ء

دوسری سالگرہ

3 دسمبر 2018ء

ہائے کم بخت تو نے پی ہی نہیں

14 اکتوبر 2015ء

تازہ ترین

علم اور انصاف کا تعلق

14 جنوری 2023ء

گالی

3 دسمبر 2022ء

مطالعے کا ایک اہم اصول

26 نومبر 2022ء

آزادئ نسواں

21 نومبر 2022ء

سلام استاد!

5 اکتوبر 2022ء
ہمارا ساتھ دیجیے

اردو گاہ کے مندرجات لفظاً یا معناً اکثر کتب، جرائد، مقالات اور مضامین وغیرہ میں بلاحوالہ نقل کیے جاتے ہیں۔ اگر آپ کسی مراسلے کی اصلیت و اولیت کی بابت تردد کا شکار ہیں تو براہِ کرم اس کی تاریخِ اشاعت ملاحظہ فرمائیے۔ توثیق کے لیے web.archive.org سے بھی رجوع لایا جا سکتا ہے۔

© 2022 - جملہ حقوق محفوظ ہیں۔