مواد پر جائیں۔
  • راحیلؔ
  • قرارداد
  • تشہیر
  • ضوابط
  • رابطہ
  • راحیلؔ
  • قرارداد
  • تشہیر
  • ضوابط
  • رابطہ
اردو گاہ
  • زبان

    فرہنگِ آصفیہ

    • لغت
    • تعارف
    • معروضات
    • لغت
    • تعارف
    • معروضات

    املا نامہ

    • املا
    • املا نامہ
    • مقدمہ
    • ابواب
    • املا
    • املا نامہ
    • مقدمہ
    • ابواب

    اردو محاورات

    • تعارف
    • فہرست
    • مقدمہ
    • اہمیت
    • ادب
    • مراجع
    • تعارف
    • فہرست
    • مقدمہ
    • اہمیت
    • ادب
    • مراجع

    اردو عروض

    • تعارف
    • فہرست
    • ابواب
    • مصطلحات
    • تعارف
    • فہرست
    • ابواب
    • مصطلحات
  • کلاسیک

    ادبِ عالیہ

    • تعارف
    • کتب
    • موضوعات
    • مصنفین
    • شمولیت
    • تعارف
    • کتب
    • موضوعات
    • مصنفین
    • شمولیت

    لہجہ

    • تعارف
    • فہرست
    • ادبا
    • اصناف
    • تعارف
    • فہرست
    • ادبا
    • اصناف
  • حکمت

    اقوالِ زریں

    • اقوال
    • فہرست
    • شخصیات
    • زمرے
    • زبان
    • اقوال
    • فہرست
    • شخصیات
    • زمرے
    • زبان

    ضرب الامثال

    • تعارف
    • فہرست
    • زبان
    • زمرہ
    • تعارف
    • فہرست
    • زبان
    • زمرہ
  • نظم و نثر

    اردو شاعری

    • تعارف
    • فہرست
    • اصناف
    • زمرے
    • تعارف
    • فہرست
    • اصناف
    • زمرے

    زار

    • تعارف
    • فہرست
    • پیش لفظ
    • پی ڈی ایف
    • تعارف
    • فہرست
    • پیش لفظ
    • پی ڈی ایف

    اردو نثر

    • تعارف
    • فہرست
    • اصناف
    • زمرے
    • تعارف
    • فہرست
    • اصناف
    • زمرے

    کیفیات

    • کیفیت نامے
    • کیفیت نامے
  • معاصرین

    معاصرین

    • معاصرین
    • فہرست
    • مصنفین
    • اصناف
    • موضوعات
    • لکھیے
    • برأت
    • معاصرین
    • فہرست
    • مصنفین
    • اصناف
    • موضوعات
    • لکھیے
    • برأت

کیا پرانا ادب اچھا ہے؟

شذرہ

15 جولائی 2023ء

پرانی کتابیں پڑھتا ہوں تو تعجب ہوتا ہے کہ بزرگوں کی فکر میں کیسی پختگی، اسلوب میں کیسی زندگی اور بیان میں کیسی دلکشی پائی جاتی تھی۔ خود سے سوال کرتا ہوں کہ آج کل اس طرح کیوں نہیں لکھا جاتا؟

میں اس مسئلے پر ایک مدت سے غور کرتا چلا آ رہا ہوں اور اس کا ایک ہی جواب مجھے سوجھا ہے۔ یعنی یہ کہ رطب و یابس ہر زمانے میں ہوتا ہے۔ اچھے برے لوگ، ادیب، عالم اور فنکار ہر دور اور ہر خطے میں پائے جاتے ہیں۔ ہوتا بس یوں ہے کہ زمان و مکان کی چھلنی میں کنکر پتھر اٹک کر رہ جاتے ہیں۔ گزر نہیں پاتے۔ چھن کر الگ ہو جاتے ہیں۔ پچھلے زمانوں اور دور دراز تہذیبوں سے ہم تک صرف اور صرف وہی کچھ پہنچتا ہے جو پہنچنے کے لائق ہوتا ہے۔ یعنی عمدہ ترین!

گویا واقعہ یہ ہے کہ پہلے لوگوں میں بھی اچھا برا ہر طرح کا لکھنے والے لوگ رہے ہیں۔ پرانی کتب کے ذخیرے کھنگال کر دیکھے جائیں تو ثبوت بھی میسر آ جائے گا۔ مگرپھر ہوا یوں کہ  وقت کے منصف نے اس دفتر سے ردی خود ہی پھٹک کر پھینک دی اور ماضی کی محض وہ کتب قبولِ عام کی وساطت سے ہمارے حوالے کیں جو اپنے زمانے کا بہترین اور چنیدہ ادب ہیں۔ جس میں باقی رہنے کی سچی اور واقعی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ اب جب ہم اسے پڑھتے ہیں اور اپنے اردگرد نگاہ دوڑاتے ہیں تو معاً وہم ہوتا ہے کہ اتنا اچھا آج کل تو نہیں لکھا جاتا۔ حالانکہ ماضی کا ادب چھانٹا ہوا ہے اور حال کا ابھی فیصلہ ہی نہیں ہوا۔ اس طومار میں رطب و یابس سبھی موجود ہے۔

ایک وقت آئے گا جب حال ماضی ہو جائے گا۔ تب لوگ ہمارے عہد کے بچ جانے والے، چھانٹے ہوئے ادب پر نظر ڈالیں گے اور تعجب کریں گے کہ اتنا اچھا ادب ان کے زمانے میں تو تخلیق نہیں ہوتا۔ حالانکہ ان میں بھی لوگ ہوں گے جن کا کام ان سے اگلے زمانوں تک پہنچنے والا ہو گا۔  مگر وہ شاید انھیں جانتے نہ ہوں گے۔ یہی زمانے کا دستور ہے۔

میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ ہمارے عہد میں بہت اچھا ادب تخلیق ہو رہا ہے۔ مگر اپنے زمانے کے ادب کوزیادہ پڑھنے کے حق میں بہرحال میں نہیں۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے۔ ماضی کے ادب کی نسبت وقت فیصلہ صادر کر چکا ہے کہ اس میں سے کیا فانی ہے اور کیا لافانی۔ حال کی تخلیقات پر حکم لگنا ابھی باقی ہے۔ کیا عجب کہ جن چیزوں کو ہم ادبِ عالیہ سمجھتے ہیں وہ وقت کی دھول میں گم ہو جائیں اور جنھیں ناچیز گردانتے ہیں وہ صیقل ہو کر اگلی صدیوں اور ہزاریوں تک تہذیبوں کو منور کرتی رہیں۔

پس جب ہمیں ماضی کی جھلکیاں غیر معمولی طور پر دلکش معلوم ہوں تو یہ نہیں چاہیے کہ ہم حال سے بدظن ہو جائیں۔ کیونکہ نہیں معلوم کہ حال کا کون سا اثاثہ وقت کی کسوٹی پر پورا اتر کر مستقبل میں فروغ پا جائے گا۔ اور جب حال کی تخلیقات ہمیں حد سے زیادہ شاندار محسوس ہوں تو بھی شک کرنا چاہیے کیونکہ ماضی کے بہت سے شاہکار اپنی تمہیدوں، تقریظوں اور تعریفوں سمیت فراموشی کے پاتال میں دفن ہو گئے ہیں۔

راحیلؔ فاروق

پنجاب (پاکستان) سے تعلق رکھنے والے اردو نثر نگار۔

Prevپچھلی نگارشاردو میں عظیم ادب کا سوال
اگلی نگارشکچھ کتابیں، کچھ یادیںNext

تبصرہ کیجیے

اظہارِ خیال

آپ کا کیا خیال ہے؟ جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل کا پتا شائع نہیں کیا جائے گا۔ تبصرہ ارسال کرنے کے لیے * کے نشان والے خانے پر کرنا ضروری ہے۔

اردو نثر

راحیلؔ فاروق کی نثری نگارشات۔ شعری، ادبی، فکری، معاشرتی اور مذہبی موضوعات پر انشائیے، مضامین اور شذرات۔

آپ کے لیے

ہائے کم بخت تو نے پی ہی نہیں

14 اکتوبر 2015ء

عید مبارک!

15 اکتوبر 2013ء

روایت و امانت

10 ستمبر 2018ء

اردو میں عظیم ادب کا سوال

11 جون 2023ء

نہ جنوں رہا نہ پری رہی

4 مئی 2021ء

تازہ ترین

روٹی اور پڑھائی

10 اگست 2025ء

جا ری عقل

29 جون 2024ء

الوداع، اماں!

4 مئی 2024ء

غلام یاسین فوت ہو گیا

27 دسمبر 2023ء

شاعرانہ مزاج

18 دسمبر 2023ء
ہمارا ساتھ دیجیے

اردو گاہ کے مندرجات لفظاً یا معناً اکثر کتب، جرائد، مقالات اور مضامین وغیرہ میں بلاحوالہ نقل کیے جاتے ہیں۔ اگر آپ کسی مراسلے کی اصلیت و اولیت کی بابت تردد کا شکار ہیں تو براہِ کرم اس کی تاریخِ اشاعت ملاحظہ فرمائیے۔ توثیق کے لیے web.archive.org سے بھی رجوع لایا جا سکتا ہے۔

© 2022 - جملہ حقوق محفوظ ہیں۔