کل عبدالحکیم شہر میں ایک بااثر شخص کو دن دہاڑے سرِ بازار قتل کر دیا گیا۔ حکومتی مشینری فوراً حرکت میں آئی اور جدید ترین تفتیشی وسائل بروئے کار لاتے ہوئے تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا۔
چوبیس گھنٹے گزرنے سے پیشتر موقعِ واردات پر عوامی بیانیے کی صورتِ حال حسبِ ذیل ہے۔
- قاتل ذاتی عناد رکھتے تھے۔ سیاسی انتقام لیا گیا۔ ڈاکوؤں نے مزاحمت پر قتل کیا۔
- قاتل تین تھے۔ دو تھے۔
- قاتل گرفتار کر لیے گئے۔ دبئی فرار ہو گئے۔
- سات لاکھ لوٹا گیا۔ دس لاکھ لوٹا گیا۔ کچھ بھی نہیں لوٹا گیا۔
- مقتول ایک نہایت ظالم اور بددماغ شخص تھا۔انتہائی دردمند انسان اور کئی بےچراغ گھروں کا ان داتا تھا۔
- مقتول ایک سینئر صحافی تھا۔ مقتول کا صحافت سے کوئی حقیقی تعلق نہیں۔
- قاتلوں کے پاس ایک نہایت پھٹیچر سی موٹر سائیکل تھی۔ قاتل نئی ہنڈا سی ڈی 70 پر وارد ہوئے تھے۔
- مقتول نے ایک قاتل کو پہچان لیا تھا۔ (کس نے بتایا؟)
- مقتول کے ملازمین زیرِ حراست ہیں اور ان کے والدین سخت پریشان ہیں۔ ملازمین جنازے میں شریک تھے۔ ان کا کیا قصور؟
- قاتلین کے پورے خاندان دھر لیے گئے ہیں۔ قاتلین خود گرفتار ہوئے ہیں۔
یہ چند گھڑیاں پہلے ہونے والے ایک واقعے کے موقع پر موجود افسانہ ہے جس کے زیبِ داستان میں ہر گزرتے پل کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ پھر دیکھتا ہوں تو یہی لوگ مذہب کی صدیوں پرانی روایات کو بھی ایسے یقین کے ساتھ مانتے ہیں گویا خود موقع پر موجود تھے۔
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَـهَا وَاَشْفَقْنَ مِنْـهَا وَحَـمَلَـهَا الْاِنْسَانُ ۖ اِنَّهٝ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًا
(احزاب – ۷۲)
ہم نے آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے امانت پیش کی پھر انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے اور اسے انسان نے اٹھا لیا، بے شک وہ بڑا ظالم بڑا نادان تھا۔