Skip to content
اردو نثر
  • تعارف
  • فہرست
  • اصناف
    • انشائیہ
    • مضمون
    • کہانی
    • مقالہ
    • شذرہ
  • زمرے
    • نقد و نظر
    • انسان
    • مذہب
    • معاشرہ
    • سوانح
    • طنز و مزاح
    • متفرقات
Menu
  • تعارف
  • فہرست
  • اصناف
    • انشائیہ
    • مضمون
    • کہانی
    • مقالہ
    • شذرہ
  • زمرے
    • نقد و نظر
    • انسان
    • مذہب
    • معاشرہ
    • سوانح
    • طنز و مزاح
    • متفرقات

سماجی واسطوں کی فطرت سے بغاوت

شذرہ

15 جنوری 2022 ء

قدرت نے جو نظام معاشرتی زندگی کا قائم کیا ہے اس میں ہر واقعے کے عینی شاہدین کی تعداد محدود رکھی ہے۔ یعنی کہیں خدا نخواستہ کوئی حادثہ یا تکلیف دہ معاملہ ہوتا ہے تو عام طور پر اس کے چشم دید گواہوں کی تعداد چند سو سے تجاوز نہیں کر پاتی۔ یہی حال خوشگوار چیزوں کا ہے۔ کسی انسان کو مسرت اور اہتزاز کی معراج پر دیکھنے والے لوگ عملاً وہی ہوں گے جو اس کے آس پاس رہے ہوں۔

انٹرنیٹ اور سماجی واسطوں (social media) کی وجہ سے یہ توازن تہس نہس ہو کر رہ گیا ہے۔ کوئی بھی اچھا برا وقوعہ دنیا کے کسی کونے میں ہو تو پلک جھپکنے میں اس کے مناظر کروڑوں لوگوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ وہ تکلیف جو کسی کرب ناک منظر سے چند دلوں پر وارد ہوتی ہے، ہم نے ترقی کے نام پر کروڑوں روحوں میں بانٹ دی ہے۔ اس کے برعکس خوشی کا معاملہ زیادہ تر یہ نہیں ہوتا۔ لوگ اجنبی لوگوں کو خوش دیکھ کر اتنا خوش نہیں ہوتے جتنا انھیں دکھ میں دیکھ کر دکھ اٹھاتے ہیں۔ بلکہ بعض اوقات غیروں کی خوشی کا الٹا اثر ہوتا ہے اور انسان کے دل میں اپنی بد قسمتی اور حرماں نصیبی کا خیال جڑ پکڑ جاتا ہے۔ اس سے حسد، غصے اور جارحیت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں جن کا اظہار ہم صبح و شام انٹرنیٹ پر ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔

جب تک ذرائعِ ابلاغ باقاعدہ اداروں یعنی اخبار، ریڈیو اور ٹی وی کی شکل میں رہے، مواد کی ادارت (moderation) کسی نہ کسی حد تک ممکن تھی۔ اب جبکہ سماجی واسطوں نے ہر شخص کو اشاعت و ابلاغ کا اختیار دے دیا ہے، یہ مسئلہ نہایت سنگین صورت اختیار کر گیا ہے۔ بہت بار غیر اختیاری طور پر نظر سے ایسی تکلیف دہ چیزیں گزر جاتی ہیں جن کے ملاحظے کی نہ خواہش تھی، نہ ارادہ اور نہ فائدہ۔ مزاج دیر تک مکدر رہتا ہے۔ جو لوگ ٹیکنالوجی کی ان برکات سے روز و شب اور اہتمام کے ساتھ فیض یاب ہونے کے عادی ہیں، سوچنا چاہیے کہ ان کی طبیعتوں پر اس کے دور رس اثرات کیا مرتب ہوں گے۔

ملاحظہ فرمائیے ایک متعلقہ مضمون: سماجی واسطے اور سماج

راحیلؔ فاروق

پنجاب (پاکستان) سے تعلق رکھنے والے اردو نثر نگار۔

Prevپچھلی نگارشٹٹی کی کہانی
اگلی نگارشفرد اور انفرادیتNext

تبصرہ کیجیے

اظہارِ خیال

اردو نثر

راحیلؔ فاروق کی نثری نگارشات۔ شعری، ادبی، فکری، معاشرتی اور مذہبی موضوعات پر انشائیے، مضامین اور شذرات۔

آپ کے لیے

زبانِ یارِ من ترکی

2 دسمبر 2014 ء

ہیر نہ آکھو کوئی

28 مارچ 2016 ء

شیخوپوری

22 جون 2021 ء

دوسری سالگرہ

3 دسمبر 2018 ء

روایت و امانت

10 ستمبر 2018 ء

تازہ ترین

تعصب

18 مئی 2022 ء

نظریہ

8 مارچ 2022 ء

مرادفات، مترادفات اور لغویات

21 فروری 2022 ء

فرد اور انفرادیت

22 جنوری 2022 ء

ٹٹی کی کہانی

10 جنوری 2022 ء
اردو گاہ
Facebook-f Twitter Instagram Pinterest Youtube

ہم روایت شکن روایت ساز

  • لغت
  • ادب
  • لہجہ
  • شاعری
  • نثر
  • اقوال
  • امثال
  • املا
  • عروض
  • معاصرین
  • زار
  • کیفیات
Menu
  • لغت
  • ادب
  • لہجہ
  • شاعری
  • نثر
  • اقوال
  • امثال
  • املا
  • عروض
  • معاصرین
  • زار
  • کیفیات
  • تشہیر
  • ضوابط
  • رابطہ
Menu
  • تشہیر
  • ضوابط
  • رابطہ
اطلاقیہ
اشتہار
ہمارا ساتھ دیجیے
اشتہار

اردو گاہ کے مندرجات لفظاً یا معناً اکثر کتب، جرائد، مقالات اور مضامین وغیرہ میں بلاحوالہ نقل کیے جاتے ہیں۔ اگر آپ کسی مراسلے کی اصلیت و اولیت کی بابت تردد کا شکار ہیں تو براہِ کرم اس کی تاریخِ اشاعت ملاحظہ فرمائیے۔ توثیق کے لیے web.archive.org سے بھی رجوع لایا جا سکتا ہے۔

© 2022 - جملہ حقوق محفوظ ہیں۔