Skip to content
  • نثر
  • فہرست
  • اصناف
    • انشائیہ
    • مضمون
    • کہانی
    • مقالہ
    • شذرہ
  • زمرے
    • نقد و نظر
    • انسان
    • مذہب
    • معاشرہ
    • سوانح
    • طنز و مزاح
    • متفرقات
Menu
  • نثر
  • فہرست
  • اصناف
    • انشائیہ
    • مضمون
    • کہانی
    • مقالہ
    • شذرہ
  • زمرے
    • نقد و نظر
    • انسان
    • مذہب
    • معاشرہ
    • سوانح
    • طنز و مزاح
    • متفرقات

عوامی مقبولیت کے نئے اصول

شذرہ

22 اکتوبر 2021ء

میں 2003ء سے انٹرنیٹ استعمال کر رہا ہوں۔ بہت کچھ اپنی آنکھوں کے سامنے ابھرتا اور ڈوبتا ہوا دیکھا ہے۔ کوتاہیاں اور کمینگیاں تو ان گنت ہوئی ہوں گی لیکن کبھی کسی باقاعدہ مجرمانہ سرگرمی میں شریک نہیں رہا۔ اللہ کے فضل سے کوئی بڑا نقصان بھی نہیں اٹھایا۔ ناک کی سیدھ میں چلنے کی اس روش کا ایک دلچسپ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اکثر ان باتوں پر ہکا بکا رہ جاتا ہوں جن کا مجھے پہلے ہی علم ہونا چاہیے۔ اس کی مثال ہمارے ان دوست کی سی ہے جو سڑک پر جاتے جاتے کسی کھڑے ہوئے رکشے سے ٹکرا جاتے ہیں اور پھر کپڑے جھاڑ کر کہتے ہیں، "اوہ تہاڈی پین نوں۔ رکشا!”

پچھلے دنوں ملک کی ایک معروف سیاسی رہنما کے بارے میں ایک غیرملکی رپورٹ میں انکشاف ہوا تھا کہ ٹوئٹر پر ان کی مقبولیت جعلی کھاتوں کے سہارے قائم ہے۔ ان کو پسند کرنے والوں اور ان کی ہاں میں ہاں ملانے والوں کی بہت بڑی تعداد انسان نہیں بلکہ خودکار مصنوعی الگاردم ہیں جنھیں بوٹس (bots) کہا جاتا ہے۔ میں نے یہ خبر پڑھی۔ اتنے بڑے دھوکے پر چونکا بھی۔ حالانکہ مجھے یہ اندازہ ہونا چاہیے تھا کیونکہ میں نے خود ایسا ہوتے ہوئے دیکھ رکھا تھا۔ لیکن شاید میں موصوفہ سے ان کی تمام تر جعل سازیوں کے باوجود یہ توقع نہیں کر رہا تھا۔

کل ٹوئٹر پر ایک حالیہ سیاسی اور مذہبی ہنگامے سے متعلق کچھ ٹرینڈز دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ دال میں کچھ کالا محسوس ہوا تو کریدنا شروع کیا۔ معلوم ہوا کہ ان ٹرینڈز میں شریک 80-90 فیصد اکاؤنٹ حالیہ اور گزشتہ ماہ میں بنائے گئے ہیں۔ ان کی ٹویٹس کو تو سیکڑوں "لوگ” پسند اور ری ٹویٹ کر رہے ہیں مگر فالوورز کی تعداد اوسطاً تیس چالیس سے زیادہ نہیں۔ ٹویٹس کے تجزیے سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اکاؤنٹ خاص طور پر اسی مقصد کے لیے بنائے گئے ہیں۔ مواد شدت پسندانہ اور ایسی لایعنی تکرار پر مبنی ہے جو عام لوگوں کی باتوں میں نظر نہیں آتی۔ وغیرہ وغیرہ۔

مجھے اس بات پر بھی کافی حیرانی ہوئی ہے اگرچہ نہیں ہونی چاہیے تھی۔ سماجی واسطے (social media) جھوٹ اور تصنع کا اتنا بڑا کھیل بن چکے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی لائکس اور فالوورز "خریدنے” کی قانونی اور غیر قانونی تکنیکوں سے آگاہ ہیں۔ چیزیں اب خود وائرل نہیں ہوتیں بلکہ انھیں وائرل کیا جاتا ہے۔ اور یہ سب اتنا سستا ہے کہ ایک عام آدمی کی دسترس سے بھی باہر نہیں۔ معلوم نہیں کون کس سے کھیل رہا ہے مگر اتنا ضرور ہے کہ یہ دنیا بالکل وہ نہیں جو نظر آتی ہے۔

جلسے جلوسوں میں میں کبھی شریک نہیں ہوا۔ شنید ہے کہ وہاں بھی لوگ بیچے اور خریدے جاتے ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو عوام میں مقبولیت کے نام پر سب سے بڑا جھوٹ عوام ہی سے بولا جا رہا ہے۔ اور ایک خاص طریقے سے بولا جا رہا ہے تاکہ لوگوں میں شدت پسندی اور جہالت پر مبنی نظریات کو مصنوعی طور پر فروغ دیا جا سکے۔ اللہ ہم سب کے حال پر رحم فرمائے۔

راحیلؔ فاروق

پنجاب (پاکستان) سے تعلق رکھنے والے اردو نثر نگار۔

Prevپچھلی نگارشادیب اور ناقد
اگلی نگارشفکری تضادات کا جوازNext

تبصرہ کیجیے

اظہارِ خیال

اردو نثر

راحیلؔ فاروق کی نثری نگارشات۔ شعری، ادبی، فکری، معاشرتی اور مذہبی موضوعات پر انشائیے، مضامین اور شذرات۔

آپ کے لیے

بغاوت سے سفاہت تک

15 فروری 2020ء

یہ جو چشمِ پر آب ہیں دونوں

24 مارچ 2017ء

تعلیم، تادیب اور تشدد – حصہ دوم

16 دسمبر 2018ء

نقل اور عقل

26 ستمبر 2022ء

سکسٹی سکس

29 ستمبر 2022ء

تازہ ترین

محبت کی قیمت

21 مارچ 2023ء

اصلاح

10 مارچ 2023ء

سبق

6 مارچ 2023ء

عنایت، کرم، شکریہ، مہربانی!

12 فروری 2023ء

علم اور انصاف کا تعلق

14 جنوری 2023ء
ہمارا ساتھ دیجیے

اردو گاہ کے مندرجات لفظاً یا معناً اکثر کتب، جرائد، مقالات اور مضامین وغیرہ میں بلاحوالہ نقل کیے جاتے ہیں۔ اگر آپ کسی مراسلے کی اصلیت و اولیت کی بابت تردد کا شکار ہیں تو براہِ کرم اس کی تاریخِ اشاعت ملاحظہ فرمائیے۔ توثیق کے لیے web.archive.org سے بھی رجوع لایا جا سکتا ہے۔

© 2022 - جملہ حقوق محفوظ ہیں۔