ہم کوئی آسماں بسر بھی نہیں
گھر فقیروں کا خاک پر بھی نہیں
بےنیازی ہے اس کی کیا کہیے
وہ خدا ہے تو بےخبر بھی نہیں
آ تو بیٹھا ہوں رہگزر میں مگر
اس طرف اس کی رہگزر بھی نہیں
وہ سبک رو نظر سے آگے تھا
اس میں کوتاہئ نظر بھی نہیں
اب خدا سے کسی کو عشق تو کیا
اب کسی کو خدا کا ڈر بھی نہیں
‘ہے خبر گرم ان کے آنے کی’
یہ خبر اتنی معتبر بھی نہیں
دیکھ میں بوڑھا ہو چلا ہوں ظفرؔ
زندگی اتنی مختصر بھی نہیں