دو گھڑی کی اور مہلت ہے ذرا جلدی کرو
اتنی فرصت بھی غنیمت ہے ذرا جلدی کرو
روٹھ کر جانے لگی دوشیزۂ عمرِ رواں
آخری بوسے کی چاہت ہے ذرا جلدی کرو
حشر برپا کر رہا ہے پھر جمالِ فتنہ خیز
چشم. غرقِ بحرِ حیرت ہے. ذرا جلدی کرو
بادۂ سر مست چشمِ گل رخاں کے فیض سے
زندگی میں کچھ حرارت ہے ذرا جلدی کرو
پھر وہی کاجل بھری آنکھیں وہی زلفِ سیاہ
یہ شبِ ظلمت قیامت ہے ذرا جلدی کرو
پھر اسی شیریں سخن سے ہم کلامی کا ہے شوق
کچھ تو شعروں میں حلاوت ہے ذرا جلدی کرو
روح کے آتش کدے میں پھر وہی رقص شرر
پھر وہی سامان وحشت ہے ذرا جلدی کرو
منزلِ شہرِ خموشاں آ گئی نزدیک تر
چند قدموں کی مسافت ہے ذرا جلدی کرو
تھی مگر اب تو گنہ میں بھی کوئی لذت نہیں
یہ بھی اک اندازِ وحشت ہے ذرا جلدی کرو
پھر جمالِ یار ہے آئینۂ حسنِ خیال
پھر وہی کثرت میں وحدت ہے ذرا جلدی کرو
یہ جو ہیں دو چار سانسیں یہ جو ہیں اک دو قدم
قرض مجھ پر ان کی قیمت ہے ذرا جلدی کرو
آرزو نقویؔ سے گر ملنے کی ہے مل لو. کہ وہ
محرمِ رمزِ ولایت ہے ذرا جلدی کرو