نیک محمد گھر لوٹا تو خلافًِ معمول چہرہ اترا ہوا تھا۔ باورچی خانے کی بجاۓ سیدھا کمرے کی طرف چلا گیا۔ چھڑی کی مانوس ٹھک ٹھک سن کر نسرین متوجہ ہوئی۔ یہ ٹھک ٹھک کی آواز قریب آتی محسوس ہو رہی تھی تو نسرین نے سوچا ابھی نیکا پوچھے گا اللہ آلیے روٹی پک گئی ہے یا نئیں؟ لیکن جب باورچی خانے کا دروازہ کھلا، نہ ہی نیکے نے کوئی آواز دی تو نسرین کو تشویش ہوئی۔ آج نیک محمد دس بجے چاۓ پینے بھی تو نہیں آیا تھا۔ اس نے توے سے روٹی اتاری۔ دونوں گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر بڑی مشکل سے اٹھی ایک ہاتھ کمر پر اور ایک ہاتھ گھٹنے پر رکھا اور کمرے کی طرف چل دی۔ ” نیکیا ! اوۓ نیکیا ! ۔۔ او نیک محمدا ”
مگر جواب نہ آیا۔ نسرین کا دل بیٹھنے لگا۔ منہ ہی منہ میں بڑبڑائی۔ ” یا اللًّٰ خیر، اینوں کی ہویا اے ” کمرے میں اندھیرا تھا، بجلی تو کب کی کٹ گئی تھی نسرین منہ ہی منہ بڑبڑاتی ہوئی نیم تاریک برآمدے سے گزر رہی تھی۔ ” نیک محمد ٹھیک ہی تو کہتا ہے کہ ہم دو ہی تو بڈھی بڈھا ہیں ہمیں بتی کی لوڑ ہی کیا ہے۔ بات بھی سچ ہی ہے۔ ٹی وی ہے نہ فریج۔ ایک پنکھا ہی پنکھا ہے اس کا بھی 13 سو روپے بل۔ دفع کرو جی۔ ضرورت ہی کیا ہے۔ نسرین خود سے باتیں کرتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی۔
” اوۓ نیک محمدا ! کیا ہے تجھے؟ لالٹین تو بال لے نا، کتنا ہنیرا کیا ہوا ہے۔ ”
نیک محمد نے اب بھی کوئی جواب نہ دیا تو نسرین کی ہمت جواب دینے لگی۔ دروازے کے ساتھ ہی پڑی ٹپائی کو ٹٹول ٹٹولا اس پر لالٹین ڈھونڈی۔ ماچس بھی ساتھ ہی پڑی تھی سو مل گئی۔ لیکن کانپتے ہاتھوں سے لالٹین کا شیشہ کھل ہی نہیں رہا تھا گھبرا کر آواز دی ” نیک محمدا ” اس کی آواز بھی واضح طور پر کانپ رہی اور یوں لگتا تھا کہ گلے میں پھندا سا لگ گیا۔ بھرائی ہوئی آواز میں دوبارہ آواز دی۔ اس بار نیک محمد نے ہنکارا بھرا ” ہوں ” نسرین کی جان میں جان آ گئی۔ لالٹین کا شیشہ بڑی آسانی سے کُھل گیا۔ دیا سلائی سے لالٹین کو روشن کیا اور اٹھا کر شیلف پر رکھ دیا۔ کمرے میں روشنی پھیل گئی تو اس نے دیکھا کہ نیک محمد دامن سے آنکھیں صاف کر رہا ہے۔ نسرین اس کے پاس ہی چارپائی پر بیٹھ گئی۔ اس کے جھریوں بھرے گال پر ہاتھ رکھ کر پوچھا ” کیا ہے تجھے بولتا کیوں نئیں؟ ” نیک محمد نے مختصراً جواب دیا کچھ نہیں۔ اس نے پھر پوچھا ” دس بجے چاۓ پینے کیوں نئیں آیا؟ ” نیک محمد نے اپنے سینے پر رکھا ہوا چھوٹا سا ننھا سا جوتا اس کی طرف بڑھا دیا۔ نسرین نے حیرانی سے جوتے کی طرف دیکھا اور کچھ نہ سمجھنے کے سے انداز سے اپنے گھر والے کی طرف دیکھا۔
” یہ کس کا ہے؟ ”
نیک محمد نے اس کا سہارا لیا اور بیٹھ گیا۔
” اوۓ اللہ لوکے، پچانیا نئیں؟ یہ اپنے اچُھو کا ہے۔ ”
نسرین کی حیرانی بڑھ گئی اس نے سمجھا کہ بڈھے کا دماغ چل گیا ہے۔
” اچُھو کا؟ اپنے ارشد کا ؟ ارشد کا یا اس کے چھوٹے بچے کا؟ ”
نیک محمد نے بڑے یقین سے کہا۔ ” نئیں نئیں۔۔ اچُھو کا ہے۔ تجھے یاد ہے جب اپنا اچُھو 2 ڈھائی سال کا تھا اور میں اسے سائیکل پر گھمانے لے گیا تھا۔ رستے میں ایک جوتا کہیں پھینک آیا تھا . کتنا ڈھونڈا تھا میں نے۔ مگر نہیں ملا۔ دیکھ آج مل گیا۔ تو نے نئیں پچانا؟ میں وی سمجھا تھا کسی ہور کا ہے۔ ادھر ای بیٹھ گیا۔ خورے کوئی میری طرح کا بھولا بھٹکا ڈھونڈتا ہوا آ جاۓ۔ کوئی آیا ای نئیں۔ بیٹھا رہا بیٹھا رہا۔ فر اس جُتی کو غور سے دیکھا تو یہ تو اپنے اچھو کی ہے۔ یہ دیکھ نا ذرا، ہیں؟ ”
نسرین کو وہ دن اچھی طرح یاد تھا۔ کہ جب نیک محمد سے اس نے خوب جھگڑا کیا تھا کہ نیا جوتا پھینک آۓ ہو۔ ارشد تو بچہ ہے۔ نسرین نے بڑے پیار سے کہا ” اچھا تو رو کیوں رہا ہے؟ ”
نیک محمد کے گال پر دو موٹے موٹے آنسو لڑھک گئے۔
” ٹیم ٹیم کی بات ہے ۔۔ اس دن بڑی ٹُونڈھی ۔۔ جُتی نئیں ملی۔ گھر آیا تو اچھو یہاں کھیل رہا تھا۔ بس آج مل گئی آپے ای۔ خود ای مل گئی۔ لیکن آج گھر آیا ہوں تو اچھو نئیں ہے۔ اب تو ای بتا اسے کہاں ٹُونڈوں؟ ”
نسرین کی بھی آنکھیں چھلک پڑیں۔ ” بس اینی ساری گل تھی؟ ہیں ؟ اوۓ پاغلا ایس عمرے جُتیاں ای ملتی ہیں؛ پُتر نئیں ملتے۔ "دونوں ہنس پڑے۔ ہنستے رہے اور بڑی دیر تک نجانے کس بات پر ہنستے رہے۔