اٹھ کہ یہ سلسلۂ شام و سحر تازہ کریں
عالمِ نو ہے ترے قلب و نظر تازہ کریں
اس زمانے کو بھی دیں اور زمانہ کوئی
پھر اٹھیں ولولۂ علم و ہنر تازہ کریں
تیری تدبیر سے نومید ہوئی ہے فطرت
راستے اور بھی ہیں رختِ سفر تازہ کریں
شعلۂ طور اٹھے آتشِ فاراں ہو کر
پھر تری خاک میں پوشیدہ شرر تازہ کریں
حرف و آہنگ نہ ہوں سوزِ دروں سے خالی
ہر رگِ ساز میں اب خونِ جگر تازہ کریں