کوچۂ یار میں اب جانے گزر ہو کہ نہ ہو
وہی وحشت وہی سودا وہی سر ہو کہ نہ ہو
جانے اک رنگ سا اب رخ پہ ترے آئے نہ آئے
نفسِ شوق سے گل شعلۂ تر ہو کہ نہ ہو
اب مسلسل بھی جو دھڑکے دلِ ناشاد مرا
کس کو معلوم ترے دل کو خبر ہو کہ نہ ہو
قہر میں لطف میں مدہوشی و ہشیاری میں
وہ مرے واسطے تخصیصِ نظر ہو کہ نہ ہو
ہجر کی رات تھی امکانِ سحر سے روشن
جانے اب اس میں وہ امکانِ سحر ہو کہ نہ ہو