دل چھٹ کے جاں سے گور کی منزل میں رہ گیا
کیسا رفیق ساتھ سے مشکل میں رہ گیا
آئے بھی لوگ بیٹھے بھی اٹھ بھی کھڑے ہوئے
میں جا ہی ڈھونڈتا تری محفل میں رہ گیا
ناقص ہے دوست داری میں کامل نہیں ہے تو
دشمن سے بھی غبار اگر دل میں رہ گیا
قاتل سنبھل کے تیغ لگا جائے شرم ہے
تسمہ لگا جو گردنِ بسمل میں رہ گیا
آزادی سے زیادہ اسیری میں لطف ہے
دل مرغِ روح کا قفسِ گل میں رہ گیا
سبقت جو زندگی میں سکندر سے کی تو کیا
اے خضر پیچھے مرگ کی منزل میں رہ گیا
مجنوں برہنہ کرتا اسے اپنی طرح سے
لیلیٰ کا پردہ پردۂ محمل میں رہ گیا
پار اترا جو کہ غرق ہوا بحرِ عشق میں
وہ داغ ہے جو دامنِ ساحل میں رہ گیا
کافر ہے منکر اس کی کریمی کی شان کا
خالی پیالہ کب کفِ سائل میں رہ گیا
آتشؔ کو دست و تیغ سے ممکن ہوا نہ زخم
بیچارہ مر کے حسرتِ قاتل میں رہ گیا