خدائے سخن کا ایک شعر ہے:
ہر بیت میں کیا میرؔ تری باتیں گتھی ہیں
کچھ اور سخن کر کہ غزل سلکِ گہر ہے
اس شعر کو غزل کی تعریف سمجھنا چاہیے۔ گو اندازِ بیان شاعرانہ ہے مگر غزل کا کیف و کم استاد نے بہت اچھی طرح بیان کر دیا ہے۔ لیکن آئیے، ذرا غیر شاعرانہ طور پر بھی بحث کرتے ہیں کہ غزل دراصل ہے کیا چیز۔ اس کے بعد قطعہ پر نظر ڈالیں گے کیونکہ وہ غزل ہی کا بغل بچہ ہے۔
نظم کیا ہے
شاعری دنیا بھر نظم کا نام ہے۔ نظم کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ایک مضمون پایا جاتا ہے جسے شاعر شروع سے آخر تک نبھا کر انجام کو پہنچا دیتا ہے۔ اس کے بیان میں کتنی ہی وسعت اور تنوع کیوں نہ پایا جائے، دراصل یہ ایک ہی موضوع کی حامل ہوتی ہے جس کے گونا گوں پہلو مختلف اشعار اور بندوں میں باندھے جاتے ہیں۔ نظم دوہے کی طرح دو مصرعوں کی بھی ہو سکتی ہے، رباعی کی طرح چار کی بھی اور بڑی بڑی مثنویوں کی طرح ہزار ہا اشعار کی بھی۔ اس کی ہیئتوں میں بھی ہر طرح کا تنوع پایا جاتا ہے۔ مثلث، مربع، مخمس، مسدس، ترجیع بند، ترکیب بند، معریٰ، آزاد۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ دوسری زبانوں کی شاعری پر نگاہ کیجیے تو یہ رنگا رنگ دائرہ اور وسیع ہو جائے گا۔
غزل کیا ہے
غزل اس لحاظ سے دنیا بھر کی شاعری سے منفرد ہے۔ اسے نظم کی بجائے چھوٹی چھوٹی نظموں کا مجموعہ سمجھنا چاہیے۔ یہ چھوٹی چھوٹی نظمیں دراصل اس کے اشعار ہیں۔ ہر شعر اپنی جگہ ایک نظم ہے اور دوسرے شعروں سے بالکل الگ ہے۔ ایک ہی غزل کا حصہ ہوتے ہوئے بھی ان کا آپس میں کوئی تعلق ہونا ضروری نہیں۔ ایک شعر میں شاعر وصال کا تذکرہ کرتا ہے تو دوسرے میں ہجر پر منتقل ہو جاتا ہے۔ ایک میں رندی کا بیان ہے تو دوسرے میں تصوف کے رموز۔ ایک میں جان دینے پر آمادہ ہے تو دوسرے میں لینے پر۔ گویا غزل نظم کی طرح ایک قاعدے اور مضمون کی شے نہیں بلکہ بھان متی کا کنبہ ہے کہ دو دو مصرعوں کی نظمیں کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا کے مصداق جوڑ دی گئی ہیں۔ اسی کو میرؔ نے سلکِ گہر یعنی موتیوں کی لڑی قرار دیا ہے۔
غزل کی تعریف
پس
غزل شاعری کی وہ صنف ہے جس میں دو دو مصرعوں کی متعدد جداگانہ نظمیں اکٹھی ہوتی ہیں۔ ان جداگانہ نظموں کو غزل کے اشعار کہتے ہیں۔
بعض لوگوں نے اشعار کی زیادہ سے زیادہ تعداد پچیس مقرر کی ہے۔ شعرا ہمیشہ اس حد کا پاس نہیں کرتے مگر ہماری دانست میں معقول بات یہ ہے کہ پندرہ اشعار سے زیادہ کی غزل نہیں ہونی چاہیے ورنہ سننے والوں کی طبیعت پر بار ہو جاتی ہے۔
مطلع
ہیئت کے اعتبار سے غزل مطلع، ابیات اور مقطع پر مشتمل ہوتی ہے۔ مطلع اس بیت کا نام ہے جو شروع میں آتا ہے، دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں اور اگر ردیف ہو تو دونوں میں اس کا بھی التزام ہوتا ہے۔ بعض شعرا ایک سے زیادہ مطلعے کہتے ہیں۔ ایسی غزلیں ذو المطالع کہلاتی ہیں۔ مطلعوں کو مطلعِ اول، مطلعِ ثانی، مطلعِ ثالث وغیرہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
بیت
ابیات غزل کے باقی اشعار کو کہتے ہیں۔ بیت کا اصل معنیٰ ہے گھر۔ گھر چونکہ ایک اکائی ہوتا ہے اور اکائی اپنی مکمل حیثیت رکھتی ہے اس لیے بیت اس شعر کو کہنا چاہیے جس میں بات پوری ہو گئی ہو۔ نظم کے اشعار کو بیت نہیں کہا جا سکتا کیونکہ وہ ایک دوسرے سے مربوط ہوتے ہیں اور کوئی ایک شعر کماحقہٗ مکمل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ غزل کے ابیات ہیئت کے لحاظ سے یوں ہوتے ہیں کہ پہلا مصرع قافیہ اور ردیف نہیں رکھتا۔ دوسرے مصرع میں قافیہ آتا ہے اور اگر ردیف ہو تو وہ بھی۔
مقطع
مقطع غزل کا آخری بیت ہے۔ شاعر عام طور پر اس میں اپنا تخلص لاتے ہیں۔ تخلص اس نام کو کہتے ہیں جو کوئی شخص شاعر کی حیثیت سے اپنے لیے اختیار کر لے۔ مثلاً اردو کے ایک استاد شاعر کا نام مرزا محمد رفیع تھا۔ انھوں نے اپنے لیے سوداؔ تخلص اختیار کیا۔ تخلص کے اوپر جو علامت لگائی جاتی ہے اسے بت کہتے ہیں۔ تخلص کبھی کبھی مطلع میں بھی آتا ہے۔
قطعہ کیا ہے
قطعہ نظم کی قبیل سے ہے مگر غزل کی صورت رکھتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ نظم کی طرح ایک مسلسل مضمون پر مشتمل ہوتا ہے لیکن اس کے اشعار کی ہیئت غزل کے ابیات کی سی ہوتی ہے۔ یعنی پہلا مصرع غیر مقفیٰ و غیر مردف اور دوسرا مقفیٰ و مردف (قافیہ و ردیف کے ساتھ)۔ غزل سے ملتا جلتا ہونے کے باوجود عام طور پر قطعے میں مطلع اور مقطع نہیں ہوتے۔
قطعہ کی تعریف
قطعہ وہ نظم ہے جو غزل کی ہیئت میں کہی جاتی ہے اور عموماً مطلع و مقطع سے عاری ہوتی ہے۔
صنف کے اعتبار سے نظم ہونے کے ناتے قطعہ میں موضوعات کی کوئی قید نہیں۔ غزل عام طور پر عاشقانہ، رومانوی، اخلاقی، صوفیانہ یا فلسفیانہ رنگ رکھتی ہے مگر قطعہ دنیا کے کسی بھی موضوع پر ہو سکتا ہے۔
قطعہ بند کیا ہے
قطعہ چونکہ غزل ہی کی ہیئت میں ہوتا ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، اس لیے بعض اوقات غزل کے اندر بھی آتا ہے۔ معاملہ دراصل یہ ہے کہ غزل کہتے کہتے اگر شاعر کسی موضوع پر متوجہ ہو کر چند اشعار مسلسل کہے تو وہ الگ شمار نہیں ہوتے۔ انھیں غزل ہی میں درج کیا جاتا ہے اور ان سے پہلے ق لکھ دیا جاتا ہے۔ یہ قاف قطعہ بند کی علامت ہے۔
قطعہ بند کی تعریف
تو
جو قطعہ غزل کے درمیان آتا ہے اسے قطعہ بند کہتے ہیں۔
غزلِ مسلسل کیا ہے
غزلِ مسلسل کو قطعہ اور غزل کے درمیان کی چیز سمجھنا چاہیے۔ مضمون کے اعتبار سے یہ قطعہ کی طرح نظم ہوتی ہے۔ یعنی ایک ہی موضوع پر کلام کیا جاتا ہے۔ تاہم ہیئت کے اعتبار سے یہ قطعہ کے برعکس پوری غزل ہوتی ہے اور باقاعدہ مطلع اور مقطع رکھتی ہے۔
قطعہ، جیسا کہ پہلے ذکر ہوا، نظم کی طرح کسی بھی موضوع پر ہو سکتا ہے۔ اس کے برعکس غزلِ مسلسل اصل میں غزل ہی کی ایک صورت ہے اس لیے اس کے موضوعات اور مضامین روایتی اور محدود ہوتے ہیں۔ یعنی عاشقانہ، صوفیانہ اور فلسفیانہ وغیرہ۔
غزلِ مسلسل کی تعریف
غزلِ مسلسل وہ غزل ہے جو نظم کی طرح ایک ہی موضوع کی حامل ہو۔