ہر تمدن کی کچھ خوبیاں ہوتی ہیں اور کچھ خامیاں۔ مگر عوام کا چلن یہ ہے کہ غالب تمدن کی خامیوں کو بھی خوبیاں سمجھتے ہیں اور مغلوب کی خوبیوں کو بھی درخورِ اعتنا نہیں جانتے۔ کم و بیش یہی معاملہ اردو کے ادبی و تنقیدی ورثے بشمول عروض کے ساتھ ہوا ہے۔
اہلِ مغرب کی روش علی العموم جمہوری ہے۔ وہ گدھے گھوڑے کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کے شائق ہیں۔ یہ رویہ ان کے ہاں مذہب اور ریاست کی جانب سے روا رکھے جانے والے صدیوں کے استبداد اور استحصال کے فطری نتیجے میں پیدا ہوا ہے۔ اسی کا ثمر ہے کہ آپ خواتین کی مساوات، جانوروں کے حقوق اور معذوروں اور مجہولوں کی خصوصی حیثیت وغیرہ پر گرما گرم مباحث دیکھتے ہیں۔ ان کے پسِ پشت کارفرما جذبۂِ ہمدردی سے انکار نہیں مگر ردِ عمل اور جذباتیت کو ایک طرف رکھ کر دیکھیے تو یہ دو کو چار کے برابر قرار دینے کی تحریکات ہیں۔
تعلیم کے میدان میں اس جمہوریت پسندی نے متعلم کو عملِ تعلیم کا مرکز قرار دیا ہے اور اس کے لیے ہر ممکن سہولت اور آسائش کی سفارش کرنا چاہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ استاد اپنی مسند سے اتر کر زمین پر آ بیٹھا ہے اور طلبہ کے لیے سنگھاسن سجا دیے گئے ہیں۔ علمِ عروض میں ایک ایسا ہی سنگھاسن ہجائی نظام ہے۔
اس نظام کا مختصر تعارف یہ ہے کہ اس میں روایتی تقطیع کی بجائے آوازوں کو لمبی اور چھوٹی میں توڑ کر تعداد اور ترتیب کی پیمائش کی جاتی ہے۔ لمبی اور چھوٹی آوازوں کے لیے مختلف علامتیں مقرر ہیں۔ زیادہ تر انھیں ۱ اور ۲ سے ظاہر کیا جاتا ہے۔
ہجائے کوتاہ = ۱
ہجائے بلند = ۲
ہمارا مدعا چونکہ ہجائی نظام کی تشریح و توضیح نہیں ہے اس لیے ہم بحرِ متقارب مثمن سالم سے روایتی اور ہجائی تقطیع کی محض ایک مثال پر اکتفا کرتے ہیں۔
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
روایتی تقطیع
فعولن + فعولن + فعولن + فعولن
ترے عش + ق کی ان + تہا چا + ہتا ہو
ہجائی تقطیع
۱۲۲ + ۱۲۲ + ۱۲۲ + ۱۲۲
ہجائی نظام انگریزی عروض کی تقطیع (Scanning) سے براہِ راست ماخوذ ہے۔ اس کا سب سے بڑا جواز یہ لایا جاتا ہے کہ اس کی مدد سے مبتدیوں کے لیے عروض سمجھنا اور شعر کہنا سہل ہو جاتا ہے۔ یہ دلیل بظاہر بڑی خوشنما ہے مگر غور سے دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ معاملہ کچھ اور بھی ہے۔
عوام کا علم، ذوق اور پسند ناپسند کبھی بھی معیار کے درجے کو نہیں پہنچ سکتے۔ لوگوں کی اکثریت پوچ اور لغو خیالات کو پسند کرتی ہے، سستی ترجیحات رکھتی ہے اور متانت و وقار سے عاری ہوتی ہے۔ یہی رویے انھیں عوام بناتے ہیں اور خواص کو ان سے امتیاز بخشتے ہیں۔ لہٰذا کاروباری اور مذہبی اداروں کے سوا کبھی کوئی ہوش مند شخص یا ادارہ اپنے معیارات عوام کو ذہن میں رکھ کر طے نہیں کرتا۔ ہجائی نظام کا قصہ الٹ ہے۔ یہ سراسر عوامی شے ہے اور کیا ہی دلچسپ اتفاق ہے کہ اس سے کاروباری اور مذہبی لوگ ہی زیادہ تر وابستہ بھی ہیں۔
عملی طور پر ہجائی نظام کے نقصانات بہت گہرے ہیں۔ اس نظام نے زیادہ تر نیم خواندہ اور کور ذوق عوام پر اپنا جال پھینکا ہے اور انھیں بزعمِ خویش شاعر بنا دیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ جو شخص پرائمری کی سطح کا املا کا پرچہ حل نہ کر سکتا تھا وہ دھڑا دھڑ غزل سرائیاں کر رہا ہے۔ ہجاؤں کی جمع تفریق سے طبیعت میں موزونیت اور آہنگ پیدا ہونے کا امکان شاذ ہے۔ لہٰذا آپ دیکھیں گے کہ ان ڈیجیٹل شعرا کی سخن آرائیوں اور روبوٹس کے کلام میں بہت کم فرق پایا جاتا ہے۔
دوسری جانب روایتی عروض کا قصہ یہ ہے کہ اسے زبان و بیان اور ادب و فن سے نابلد شخص کے لیے سمجھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ یہ ایک قسم کی چھلنی ہے جس سے روڑے پتھر خود ہی الگ ہو جاتے ہیں۔ عروض کی دنیا میں داخل وہی ہوتا ہے جو ادب شناسی اور زبان فہمی کے ایک خاص درجے پر ہو۔ ہجائی نظام نے مغرب کے جمہوری تصورِ تعلیم سے متاثر ہو کر یہ آڑ تو اٹھا دی مگر اس مشکل کے رفع ہونے سے ایک اور مشکل یہ پیدا ہو گئی کہ جنھیں بات کرنا نہیں آتی وہ شعر گوئی کے دعویدار ہو گئے۔
جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا ہے، ہجائی نظام کا عروض کے آہنگ اور موسیقیت سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ اس کے پیرو کاروں کے لیے وزن جمع تفریق کے سوا کچھ نہیں۔ وہ اس ترنم اور غنائیت سے واقف ہی نہیں ہو پاتے جو شعر کا خاصہ ہے اور اسے نثر سے ممتاز کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اس نظام کو فنونِ ادب کی بجائے کمپیوٹر سائنس کی ایک شاخ قرار دینا زیادہ مناسب سمجھتے ہیں۔
ہر کس و ناکس کے سیکھ لینے سے عروض مقبول نہیں ہو سکتا۔ سہل بھی نہیں ہو سکتا۔ ہاں، اپنے معیار سے گر سکتا ہے اور مذکورہ نظام کی حد تک گر بھی گیا ہے۔ تاہم ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کچھ ایسی فکرمندی کی بات بھی نہیں۔ ہر زمانے اور ہر جگہ پر ذوقی معاملات میں عوام اور ان کے گڈریے اس قسم کے گل کھلاتے رہتے ہیں۔ بس شائستہ اور خوش مذاق لوگوں کو ان چیزوں سے خبردار رہنا چاہیے۔