اردو کے قواعد اور الفاظ کو سب سے زیادہ متاثر کرنے والی زبانوں میں فارسی، عربی، ہندی اور پنجابی کے نام آتے ہیں۔ ان میں سے دو زبانوں یعنی فارسی اور عربی میں اصول ہے کہ کوئی لفظ ساکن حرف سے شروع نہیں ہو سکتا۔ یعنی پہلے حرف پر زیر، زبر یا پیش ہونی ضروری ہے۔
ہندی اور پنجابی میں بہت الفاظ ایسے ہیں جو ساکن حروف سے آغاز ہوتے ہیں۔ جیسے پریم۔ اس میں پ پر زبر نہیں ہے۔ بلکہ یہ ویسے ہی بولا جاتا ہے انگریزی میں سکول کا س۔ یعنی دوسرے حرف کے ساتھ اس طرح ملا کر کہ پہلے حرف کی کوئی حرکت نہ معلوم ہو۔
ان چاروں اہم زبانوں کا چلن ہمیں معلوم ہو گیا۔ اب اردو کو دیکھتے ہیں۔
اردو اصولاً عربی اور فارسی قاعدے پر چلتی ہے۔ یعنی کسی بھی لفظ کا آغاز ہم اردو زبان میں حرکت کے بغیر نہیں کر سکتے۔ ہر لفظ کے پہلے حرف پر زیر، زبر یا پیش ہونی لازم ہے۔
ان الفاظ کے سلسلے میں جو برصغیر کی مقامی زبانوں یا انگریزی وغیرہ سے اردو میں شامل ہو گئے ہیں اور پہلے حرف پر حرکت نہیں رکھتے، یہ قاعدہ ہے کہ ان کے پہلے اور دوسرے حرف کو ایک ہی مخلوط حرف سمجھا جاتا ہے۔ مخلوط حروف وہ ہوتے ہیں جو ب، پ، ت، ن، ج وغیرہ کی طرح ایک سادہ آواز کو ظاہر کرنے کی بجائے دو آوازوں کو اکٹھا ظاہر کریں۔ جیسے بھ، پھ، تھ، نھ، جھ وغیرہ۔
اب ہم اردو میں جب پریم یا سکول جیسے الفاظ بولیں گے تو ان کے پہلے حروف یعنی پ اور س ساکن نہیں سمجھے جائیں گے۔ بلکہ یوں ہو گا کہ پریم کا پر ایک ہی حرف ہو گا جس پر زیر ہے۔ اور سکول کا سک ایک حرف کی طرح بولا جائے گا جس پر پیش ہے۔ یعنی پریم میں شروع کے دو حروف پ اور ر لکھے تو دو جائیں گے مگر بھ، تھ، ٹھ وغیرہ کی طرح آواز ایک ہونے کی وجہ سے شمار ایک حرف کیا جائے گا۔
مخلوط حروف ان آوازوں کو ظاہر کرتے ہیں جو عام حروف تہجی سے ظاہر نہیں ہو سکتیں۔ جیسے بھ کی آواز ہم ب سے ظاہر نہیں کر سکتے۔ اس لیے ہم نے اس کے ساتھ دوچشمی ھ ملا دی۔ مگر ایسا ہمیشہ ممکن نہیں ہوتا۔ جیسے پریم کی ابتدائی آواز میں پ اور ر بالکل ملا کر تو بولے جاتے ہیں مگر پ اور ر کو ملا کر لکھنے کا کوئی طریقہ ہم نے نہیں نکالا۔ یہ یونہی لکھ دیے جاتے ہیں۔ آگے پڑھنے اور بولنے والے کی علمی استعداد پر منحصر ہے کہ وہ یہ پہچاننے کے قابل ہو کہ یہ اصل میں ہندی لفظ ہے اور اس میں پ پر زبر نہیں بولی جائے گی۔ اس لیے وزن میں بھی پ اور ر دو حروف کی بجائے ایک ہی حرف شمار ہوں گے جو اردو کے اوپر بیان کردہ قاعدے کے مطابق متحرک ہو گا۔
حاصل یہ کہ اردو میں ہر لفظ کا پہلا حرف متحرک ہونا ضروری ہے۔ اگر ہندی یا انگریزی وغیرہ کا کوئی ایسا لفظ ہے جس کا پہلا حرف زیر زبر پیش نہ رکھتا ہو تو ہم اسے الگ حرف نہیں سمجھتے بلکہ اگلے حرف کے ساتھ ملے ہوئے ایک ہی حرف کے طور پر شمار کرتے ہیں۔ اس طرح دو حروف سے مل کر بننے والے اس حرف پر کوئی نہ کوئی حرکت ضرور ظاہر ہو جاتی ہے اور اصول قائم رہتا ہے۔
—
ہم دیکھ چکے ہیں کہ اردو میں ہر لفظ کا پہلا حرف متحرک ہونا ضروری ہے۔ بالکل اسی طرح ہر لفظ کا آخری حرف ساکن ہونا بھی اردو کا اصول ہے۔ یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی لفظ ایسا ہو جس کے سب سے آخری حرف پر زیر، زبر یا پیش پائی جائے۔ اگر ملے تو ہمیں بھی دکھائیے گا۔ ہاں، ایسے الفاظ تراکیب میں البتہ کبھی کبھی مل جاتے ہیں۔ جیسے السلامُ علیکم میں السلام کی میم پر پیش ہے اور یہ دو الفاظ یعنی السلام اور علیکم کے مرکب میں موجود ہے۔