جی بھر کے جی لیا ہو تو مرنا تو چاہیے
ہاں آدمی کو عشق بھی کرنا تو چاہیے
اس آنکھ کی کٹار سے اس بھوں کی دھار سے
ڈرتے نہیں مگر ہمیں ڈرنا تو چاہیے
ٹوٹے ہوئے سبو پہ ٹھہر سا گیا ہے وقت
گردش کے مقبرے پہ ٹھہرنا تو چاہیے
وہ بھی ہے آخر ایک پرستار کی نگاہ
آئینہ دیکھنے سے نکھرنا تو چاہیے
سر جھاڑ منہ پہاڑ پڑے ہیں فراق میں
اتنے عظیم غم پہ سنورنا تو چاہیے
روتے ہیں وصل میں کہ گزر جائے گا یہ وقت
ہجراں میں سوچتے ہیں گزرنا تو چاہیے
راحیلؔ سچ سے منع نہیں کرتے ہم تمھیں
سچ بولنے کے بعد مکرنا تو چاہیے