حسن کا عشق سے نباہ نہیں
ایک کو دوسرے کی چاہ نہیں
فقر محتاجِ خانقاہ نہیں
بےکسی سے کہیں پناہ نہیں
آہ کی داد واہ واہ نہیں
سر کی قیمت فقط کُلاہ نہیں
کیا کسی اور کا کریں شکوہ
دل کے ہم خود بھی خیرخواہ نہیں
خوبیوں خامیوں کا چھوڑ حساب
تو مرا عشق ہے الٰہ نہیں
کیوں قدم رکھے اس گلی میں کوئی
کس جگہ میری سجدہگاہ نہیں
میں سمجھتا ہوں آنکھ اٹھائے بغیر
یہ کسی اور کی نگاہ نہیں
ہر شہادت وجود کی نکلی
زندگی کا کوئی گواہ نہیں
ہاتھ پھیلا ہوا فقیر کا ہے
بادشاہ آپ بادشاہ نہیں
تم تو تھے ہی نہیں کبھی راحیلؔ
جاؤ تم پر کوئی گناہ نہیں