جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا
ریختہ دل ہے، اور بکھرتا جائے گا
جھوٹ نبھانے اس کے بس کا روگ نہیں
دیکھے بن ہی باتیں کرتا جائے گا
اس سے پوچھو جو ساقی کہلاتا ہے
میرا خالی جام نہ بھرتا جائے گا؟
اپنی دھول تو پہنچے گی منزل کو مگر
کون کہے، تب کیسے برتا جائے گا؟
پوج رہا ہے مرتے ماضی کو راحیلؔ
خود بھی رفتہ رفتہ مرتا جائے گا